Maktaba Wahhabi

38 - 306
نویلی دلہن کو تب پتہ چلا کہ اس کے سامنے جس لڑکے کا تذکرہ کیاجارہاتھا وہ کوئی اور تھا جبکہ اس کی شادی اس بوڑھے سے کروادی گئی ہے۔اس نے بوڑھے سے سخت نفرت کا اظہار کردیا اور اس کو اپنے قریب نہ پھٹکنے دیا۔وہ اس کے ساتھ نہیں رہناچاہتی،اس سلسلہ میں شریعت اسلامیہ اس لڑکی کو کیاحکم دیتی ہے؟ جواب۔سوال پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شخص جو دلہا اور دلہن کے درمیان واسطہ بنا،اس نے غلط بیانی،دجل او رفریب سےکام لیا۔اگر اس دھوکا دہی میں لڑکی کے گھر والے بھی شامل تھے تو سب کے سب گناہگار ہیں ہر وہ شخص جس نے ایسا غلط قدم اٹھانے میں کسی طرح بھی تعاون کیا اس نے گناہ کا ارتکاب کیا۔یہ نکاح غیرصحیح اور باطل ہے۔شریعت میں اس کی کوئی وقعت نہیں ہے۔علماء نے پوری تفصیل کے ساتھ اس بات کی وضاحت بیان فرمائی ہے کہ لڑکی کی رضا مندی معلوم کرتے ہوئے اس بات کو یقینی بنایاجائے کہ وہ اپنے ہونے والے خاوند کے متعلق پوری معرفت حاصل کرلے،اس کا نام نسب،تعارف اور شخصیت بالکل واضح کردی جائے۔اگر وہ اس کے بارے میں پہلے سے معلومات رکھتی ہے تو فقط نام اور شادی کا اشارہ کافی ہے ورنہ ہر لحاظ سے لڑکی کے سامنے دلہا کے اوصاف ومنصب کو واضح کیاجائے۔ ’’عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک عورت کی شادی اس کے باپ نے ایک ایسے آدمی سے کردی جسے وہ ناپسند کرتی رہی حتی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو نکاح باقی رکھنے یا فسخ کرنے کااختیار دے دیا۔‘‘[1] شيخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو صحیح کہاہے۔سوال سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس لڑکی کا باپ بھی اس دھوکہ دہی میں شامل ہے،اگرشادی کرنے والے بوڑھے کواس بات علم کا تھا کہ لڑکی کو دھوکہ دیاجارہا ہے تو وہ بھی اس گناہ میں شامل ہے۔ان تمام لوگوں کو شرعی عدالت سے سزا ملنی چاہیے کیونکہ یہ جھوٹے ہیں،ان سب کو اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہیے۔(محمد بن ابراہیم آل شیخ)
Flag Counter