Maktaba Wahhabi

36 - 306
جائز نہیں ہے،نہ ہی باپ کے لیے اور نہ ہی کسی اور کے لیے جائز ہے کہ وہ نوجوانوں کنواری لڑکی کو ایسی شادی پر مجبور کرے جس کو وہ ناپسند کرتی ہے،اگر چہ یہ شادی کفو(برابری) کی بنیاد پر کی جارہی ہو۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لَا تُنْكَحُ الْبِكْرُ حَتَّى تُسْتَأْذَنَ)[1] ’’نوجوان کنواری لڑکی کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح نہیں کیا جاسکتا‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: (والبكرُ يَستأذنُها أبُوها)[2] ’’کنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا،اس سے ا س کا باپ اجازت لے گا۔‘‘ یہ حدیث دلیل ہے کہ باپ بھی اپنی نوجوان لڑکی کو نکاح پر مجبور نہیں کرسکتا،اس حدیث کا حکم عام ہے، چاہے ولی باپ ہو یا باپ کے علاوہ کوئی اور ہو۔اگر باپ اپنی بیٹی کو زبردستی کسی ایسے آدمی کے ساتھ بیاہ دینا چاہتا ہے جس کو وہ ناپسند کرتی ہے تو درحقیقت وہ حرام فعل کاارتکاب کررہاہے۔یہ حرام نکاح نہ ہی تو صحیح ہوگا اور نہ ہی نافذ ہوسکے گا۔ایسے نکاح کو صحیح کہنا اور قابل نفاذ ماننا روایات کی صریحاً خلاف ورزی ہے جن میں اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ یاد رہے کہ شارع علیہ السلام نے جس چیز سے بھی اپنی اُمت کو منع فرمایا ہے تو شارع علیہ السلام امت مسلمہ کو اس کا م سے دوردیکھنا چاہتے ہیں،اگر ہم اس کو صحیح کہیں گے تو ہم نے ان کی خواہش کر رد کردیا اور حرام نکاح کو حلال اور جائز نکاح کادرجہ دے ڈالا۔ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ ایسا نکاح فاسد ہے اورقطعاً صحیح نہیں ہے۔ رہا معاملہ جھوٹے گواہوں کا تو جھوٹی گواہی دینے والا کبیرہ گناہ کاارتکاب کرتا ہے جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اور اسے کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلم
Flag Counter