Maktaba Wahhabi

233 - 306
اس لیے اگر کسی نے اپنی بیوی کو طلاق لکھی اور اسے روانہ نہ کیا یا حوالہ ڈاک کردیا مگر وہ کہیں راستہ میں گم ہو گئی یا بیوی کے پاس پہنچی لیکن اس نے وصول کرنے سے انکار کردیا، یا وصول کرنے کے بعد پھاڑ دیا، یا اس کے والدین میں سے کسی نے کہہ دیا کہ ہم اسے نہیں مانتے،ان تمام صورتوں میں طلاق ہو جائے گی۔ اگر طلاق دینے کی نیت سے طلاق نویس کے پاس گیا، اس نے طلاق نامہ لکھ دیا اور طلاق دہندہ نے نیچے اپنے دستخط ثبت کردئیے، لیکن اسے ارسال کرنے کی بجائے فوراً پھاڑدیا تو بھی طلاق واقع ہو جائے گی،تاہم اس کا پھاڑنا رجوع شمار ہوگا۔ بہر حال طلاق دینا خاوند کا حق ہے، اگر وہ کسی بھی صورت میں اسے استعمال کرتا ہے تو ہم اپنی طرف سے اس پر پابندیاں لگانے کے مجاز نہیں ہیں، چنانچہ عرب شیوخ لکھتے ہیں کہ: ’’طلاق دینے کے لیے کوئی شرط نہیں کہ خاوند اپنی بیوی کے سامنے طلاق کے الفاظ کہے اور نہ ہی یہ شرط ہے کہ بیوی کو اس کا علم ہو۔ جب کبھی آدمی نے طلاق کے الفاظ بولے یا طلاق دی تو طلاق صحیح شمار ہوگی، اگرچہ اس کا بیوی کو علم نہ ہی ہو۔‘‘ شیخ ابن عثیمین سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے لمبے عرصہ تک غائب رہا پھر اسے طلاق دے دی جس کا علم صرف اسے ہی ہے، اگر وہ اپنی بیوی کو نہ بتائے تو کیا طلاق واقع ہو جائے گی؟ شیخ صاحب نے جواب دیا کہ طلاق واقع ہو جائے گی، اگرچہ وہ اپنی بیوی کو اس کے متعلق نہ بھی بتائے۔ اگر آدمی یہ کہہ دے کہ میں نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تو اس کی بیوی کو طلاق ہو جائے گی، خواہ بیوی کو اس کا علم ہو یا نہ ہو۔اس بنا پر فرض کریں کہ اگر عورت کو طلاق کا علم تین حیض گزر جانے کے بعد ہو تو اس کی عدت پوری ہو چکی ہوگی حالانکہ اسے اس کا علم ہی نہیں تھا۔ اسی طرح اگر کوئی آدمی فوت ہو جائے اور اس کی بیوی کو اپنے خاوند کی وفات کا علم عدت گزرنے کے بعد ہو تو اس پر کوئی عدت نہیں ہے، اس لیے کہ عدت کی مدت تو پہلے گزر چکی ہے۔[1] صورت مسئولہ میں کسی عورت کا یہ مشورہ دینا غلط ہے کہ اس طرح طلاق نہیں ہوتی
Flag Counter