Maktaba Wahhabi

188 - 306
کرنے والے شیطان کے ساتھی ہیں، فرمایا: ’’اور تو فضول خرچی نہ کر،یقیناً فضول خرچ شیطان کے بھائی ہیں۔‘‘[1] انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کرے اور اپنے ضروریات میں استعمال کرے اور اپنی حاجات کے لیے بچا کر رکھے۔ آپ کے خاوند کو چاہیے کہ مال ضائع کرنے کی بجائے اپنا گھر خریدنے کے لیے مال جمع کرے۔ اگرچہ انسان دنیا سے صرف کفن ہی لے جاتا ہے لیکن اس حقیقت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنا پیسہ فضول لباس خریدنے مہنگے اور عالیشان پکوان بنانے، قیمتی جوتے خریدنے اور مہنگی ترین گاڑیوں کے حصول میں صرف کردے، یہ قطعاً صحیح نہیں کہ فضول کاموں میں پیسہ برباد کرتا رہے، عنقریب اس پیسے کا حساب ہونے والا ہے۔ نوٹ٭:میں مترجم عرض کر رہا ہوں: اسلام راہ اعتدال کا درس دیتا ہے اور اپنے متبعین کو کنجوسی اور فضول خرچی دونوں سے منع کرتا ہے جس طرح فضول خرچی شریعت میں جائز نہیں بالکل اسی طرح کنجوسی اور بخیلی بھی ہر گز جائز نہیں ہے، مگر اللہ معاف فرمائے بعض لوگ اس قدر کنجوس ہوتے ہیں کہ عام انسان بھی تعجب کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ والد گرامی کبھی کبھار ایک حاجی صاحب کی داستان سنایا کرتے ہیں جو ان کے ساتھ حج پر گیا، اس کی بیوی بھی اس کے ساتھ تھی۔ وہ دو تین ماہ مکہ مکرمہ میں رہے اور مذکورہ حاجی صاحب کی بیوی روزانہ اپنے خاوند سے درخواست کرتی کہ مجھے سیاہ رنگ کا فلاں دوپٹہ لے دو مگر حاجی صاحب جواب دیتے تونے دوپٹے کو کیا کرنا ہے؟پھر مدینہ منورہ گئے تو بھی اس بیچاری کا یہی مطالبہ رہا مگر حاجی صاحب بھی اپنی بات کے پکے تھے۔حاجن صاحبہ نے فقط ایک دوپٹے کی فرمائش کی اور کچھ نہیں مانگا مگر حاجی صاحب بھی مضبوط اعصاب کے مالک تھے، انھوں نے بھی اپنی بات پوری کر دکھائی اور بیچاری کو دوپٹہ خرید کر نہیں دیا۔ راقم الحروف ایک دفعہ اپنے آبائی قصبہ کے مین بازار میں جارہا تھا،میرے آگے آگے ادھیڑ عمر میاں بیوی جا رہے تھے۔ بیوی میاں کو مخاطب ہو کر کہتی ہے کہ مجھے پانچ روپے کی مٹھائی لے دو۔ میاں کہتا ہے میں کہاں سے لے کر دوں؟ بیوی کہتی ہے کہ تیرے پاس اتنے پیسے ہیں،
Flag Counter