Maktaba Wahhabi

174 - 306
’’اور اگر کسی عورت کو اپنے خاوند کی بے پرواہی کاڈر ہوتو(میاں بیوی) دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ آپس میں صلاح کرکے صلح کرلیں اور صلح ہر حال میں بہتر ہے۔‘‘[1] یہاں ہم اصلاح کا یہی مطلب لے سکتے ہیں کہ تم اپنی باری قربان کر کے اسے گناہوں کی دلدل سے نکال لو۔ ’’جب حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہاعمر رسیدہ ہو گئیں تو انہوں نے اپنی باری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کردی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُم المؤمنین حضرت سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا کی باری اُم المؤمنین سیدہ عائشہ کے پاس گزارتے۔‘‘[2] اُم المؤمنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں، انھوں نے اپنی باری ہبہ کر دی۔ اگر یہ تدبیر بھی سود مند نہ رہے تو پھر آخری حل طلاق سے پہلے اتنا ضرور سوچ لینا اگر اس آدمی کے ساتھ رہنا الگ رہنے سے زیادہ نقصان دہ ہے تو اس سے طلاق کا مطالبہ کرنا اور اگر یہ سمجھوکہ الگ رہنا اس کے ساتھ رہنے سے زیادہ نقصان کا باعث ہے تو پھر صبر کرنا اور مالک ارض و سما سے گڑ گڑا کر مدد اور نصر طلب کرنا، وہ دعاؤں کو سننے والا ہے۔ اگر علیحدگی کی صورت ہی نظر آئے تو پھر اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی پیش نظر رکھنا: ’’اگر وہ دونوں (میاں بیوی) الگ ہو جائیں تو اللہ ہر ایک کو اپنے فضل سے بے پرواہ کردے گا اور اللہ وسعت اور حکمت والا ہے۔‘‘[3] آپ کا مسئلہ انتہائی مشکل ہے مگر اللہ سے مدد طلب کرنا، اس سے دعائیں کرنا اور صبرو تحمل کا مظاہرہ کرنا اس کو آسان بنا سکتا ہے۔ ہم ایک بار پھر آپ کو کہنا چاہیں گے کہ ہر حالت میں اپنے خاوند کو اچھے طریقے کے ساتھ نصیحت کیجئے،اللہ آپ کی حفاظت فرمائے اور آپ کی مشکل آسان کردے،آمین۔[4]
Flag Counter