Maktaba Wahhabi

164 - 306
تھے۔‘‘ اگر کوئی شرعی سبب ہوتومرد اپنی بیوی کو طلاق دے سکتا ہے،مثلاً وہ بے دین ہو،انتہائی بداخلاق ہو، وہ اپنی عزت کی حفاظت نہ کرتی ہو،اپنے خاوند کی خدمت نہ کرتی ہو یا اس کی اطاعت نہ کرتی ہو۔ اگر بیوی نیک اور مومنہ ہوتو اسے چاہیے کہ وہ اسے طلاق نہ دے کیونکہ اگر اسے اس کی بعض عادات ناپسند ہیں تو لازمی ہے کہ بعض عادات پسند ہوں گی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی مومن(خاوند)اپنی مومنہ(بیوی) سے بغض نہ رکھے،اگر وہ اس کی کسی ایک عادت کو ناپسند کرتا ہے تو دوسری عادت کوپسند کرتا ہوگا۔‘‘[1] جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو طلاق دینے کاارادہ کیاتو اللہ نے ان کی طرف وحی کی: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم حفصہ رضی اللہ عنہا سے رجوع کرلیں کیونکہ وہ روزہ رکھنے والی اور قیام کرنے والی ہے اور وہ جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہے۔‘‘[2] خاوند کو چاہیے کہ وہ اپنی بیوی کو سمجھائے اور اس کی اصلاح کی کوشش کرے اور اللہ سے دعا کرے کہ وہ اس کی اصلاح فرمائے۔اس کو حضرت زکریا علیہ السلام کی طرح دعا کرنی چاہیے کیونکہ جب اللہ چاہے گا تو اس کی اصلاح فرمادے گا،جیساکہ اللہ نے حضرت زکریا علیہ السلام کے متعلق فرمایا: (وَأَصْلَحْنَا لَهُ زَوْجَهُ)[3] ’’اور ان کی بیوی کو ان کے لیے درست کیا۔‘‘ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ وہ زبان درازتھی،مگر اللہ نے اس کی اصلاح کردی۔بعض دفعہ انسان بڑی تلخی اور بڑی مصیبت سے بچنے کے لیے چھوٹی مصیبت اور تلخی کو برداشت کرتا ہے۔اولاد کامستقبل سنوارنے اور خاندان کو تباہی سے بچانے کے لیے وہ بیوی کو ساتھ رکھے
Flag Counter