Maktaba Wahhabi

160 - 306
جواب۔ہم آپ سے یہی کہا چاہتے ہیں کہ اس مشکل کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں اور آپ اپنے خاوند کو سمجھائیں کہ وہ آپ کی ازدواجی زندگی میں مشکلات پیدا نہ کرے اور اللہ سے ڈر جائے۔ آپ ان مشکلات کے باوجود اپنے خاوند کی رفاقت اختیار کریں اور حسن سلوک کا مظاہرہ کریں، شاید کہ وہ ان کو نصیحت کرے اور مشکلات پیدا کرنے سے ڈرائے۔ یہ بات اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ آپ اپنے خاوند کی بہنوں اور اس کے اقارب کو گھر آنے سے منع کریں۔ بہت سی مشکلات صبر وتحمل اور حسن سلوک سے ختم کی جا سکتی ہیں۔(عبداللہ بن جبرین) ٭میں مترجم عرض کر رہا ہوں کہ ہمارے ہاں بھائی اور نند کی لڑائی کے قصے عام ہیں بیوی چاہتی ہے کہ اس کا خاوند اپنی بہنوں کے پاس نہ بیٹھے جبکہ بہنیں چاہتی ہیں کہ وہ بیوی پر توجہ نہ دے۔ اگر کسی گھر میں یہ معاملہ شدت اختیار کر جائے تو شادی کرنے والے کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ چکی کے دو پاٹوں میں پس رہا ہو،اگرچہ لوگ اسے شادی کی مبارکباد یں ہی کیوں نہ دے رہے ہوں؟ تعجب کی بات ہے جب میاں اور بیوی کا اتفاق نہ ہو تو بہنیں دعائیں کرتی ہیں کہ ہمارے بھائی کا گھر آباد ہو جائے۔ لیکن اگر میاں بیوی باہمی اتفاق سے رہنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر اختلافات جنم لیتے ہیں۔ دراصل اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر حقدار کو اس کا حق نہیں دیا جاتا تو شوہر بیوی کی طرف اس قدر مائل ہو جاتا ہے کہ بہنوں کے سالہا سال پر محیط تعلق کو بھلا دیتا ہے یا پھر بیوی کی بالکل ہی پروانہیں کرتا اور اس کی بہنیں بھی بھابھی کو جائز مقام دینے کے لیے تیار نہیں ہوتیں۔اور ان کی بیوی بھی اپنی نندوں کو دیکھنا گوارہ نہیں کرتی۔ ایسی صورتحال میں اللہ تعالیٰ اس فرمان کو مد نظر رکھ کر معاملہ کنٹرول کیا جا سکتا ہےکہ: (فَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ ۚ ذٰلِكَ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يُرِيدُونَ وَجْهَ اللّٰهِ ۖ وَأُولٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)[1]
Flag Counter