Maktaba Wahhabi

150 - 306
جاتے ہیں اور جب وہ میرے پاس رہتی ہے تو حالات درست سمت چلنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس حالت میں آپ مجھے کیا حکم صادر فرماتے ہیں کہ میں اپنی بیوی کو اس کے میکے جانے سے روک دوں یا ایسا کرنا میرے لیے صحیح نہ ہوگا۔ یا پھر ٹیلی فون پر وہ ان کی خیریت وغیرہ دریافت کر لیا کرے؟ جواب۔ ہاں، خاوند کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اگر بیوی کے گھر والے اس کو خاوند کے خلاف اکسائیں یا اس کے لیے دینی احکامات پر عمل پیرا ہونے میں رکاوٹ کا باعث بنیں تو خاوند اپنی بیوی پر پابندی لگا سکتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے گھر نہ جائے کیونکہ اگر وہ اپنے والدین کے گھر جاتی ہے تو فساد پیدا ہوتا ہے۔عورت کے لیے ممکن ہے کہ وہ ٹیلی فون اور خط و کتابت کے ذریعے اپنے گھر والوں سے رابطہ رکھے بشرطیکہ اس رابطہ میں بھی خرابی کا امکان نہ ہو۔ حدیث مبارکہ میں اس آدمی کے لیے بڑی سخت وعید ذکر کی گئی ہے جو بیوی کو اس کے خاوند کے خلاف اکساتا ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’وہ ہم میں سے نہیں جو بیوی کو خاوند کے خلاف اکساتا ہے۔‘‘[1] اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میاں اور بیوی کے پیار کو مضبوط اور گہرا دیکھنا چاہتا ہے۔ بیوی کے والدین کو یہ بات قطعاً زیب نہیں دیتی کہ وہ میاں بیوی کے درمیان اختلاف پیدا کریں۔ (صالح فوزان) نوٹ٭:میں مترجم عرض کر رہا ہوں ہمارے ہاں یہ ظلم عام ہے کہ اگر میاں بیوی کا آپس میں اختلاف ہو جائے اور میاں اپنی بیوی کے ساتھ سخت رویہ اپنائے تو اس کا باپ، بھائی اور دیگر رشتہ دار حوصلہ اور بردباری سے کام لینے کی بجائے فوراً لڑنے، مرنے اور لڑائی جھگڑے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں اور معاملہ کو سلجھانے کی کوشش نہیں کرتے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اپنی بچی کو ظلم کی چکی میں پستا ہوا چھوڑدیا جائے مگر وجہ اختلاف اور تنازع کا سبب معلوم کرنا چاہیے اور جس کی زیادتی ہواسے سمجھانے کی کوشش کرنے چاہیے۔ بعض دفعہ چھوٹی چھوٹی بات کی بناء پر میاں بیوی کو ایک دوسرے سے دور کردیا جاتا ہے اور اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ہے۔
Flag Counter