Maktaba Wahhabi

119 - 306
دے۔اگر وہ ایسا نہ کرے یا اپنے شوہر سے نفرت کا اظہار کرے تو نان و نفقہ خاوند پر واجب نہ ہو گا۔ خاوند پر نان و نفقہ واجب کرنے کی حکمت یہ ہے کہ عورت اپنے خاوند کے لیے اپنے آپ کو روک کر رکھتی ہے، وہ اس کی اجازت کے بغیر گھر سے نہیں نکلتی تاکہ خود کما کر اپنا پیٹ پال سکے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ خاوند اس کی ضروریات کا خیال رکھے اور یہ نان و نفقہ اس خاص فائدے کے بالمقابل ہے جو خاوند اپنی بیوی سے حاصل کرتا ہے۔ نان و نفقہ سے مراد بیوی کو کھانا کھلانا، کپڑے پہنانا، اسے کہیں ٹھہرنے کی جگہ مہیا کرنا اور اس کی تمام جائز ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ یہ خاوند کے ذمہ واجب ہے اگرچہ اس کی بیوی مالدار ہی کیوں نہ ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: (وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ)[1] ’’اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے‘‘ اور فرمایا : (لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِ ۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُ فَلْيُنفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللّٰهُ)[2] ’’کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کے رزق میں تنگی ہو گی ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ نے اسے دے رکھا اس میں سے (حسب حیثیت ) خرچ کرے۔‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا کو جو کہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی تھیں، اس وقت فرمایا تھا جب وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کر رہی تھیں کہ وہ اس کو خرچہ نہیں دیتے: ’’کہ تو معروف طریقے سے اتنا اس کے مال سے لے لیا کرو تجھے اور تیرے بیٹے کو کافی ہو۔‘‘[3] دراصل وہ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی شکایت کر رہی تھیں کہ وہ بخیل ہیں اور مجھے اتنا
Flag Counter