نےسمجھ لیا۔ یہ حدیث بھی منجملہ ان احادیث، کی ہے جن کے معنیٰ ہر وہ شخص سمجھ سکتاہے جو معرفت حق کی توفیق سے محروم نہیں ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کے پاس بطور آزمائش ملک الموت کو یہ کہہ کر بھیجا کہ موسیٰ سے کہو ”موت کےلیےتیارہوجائے “ مگر اللہ تعالیٰ کا یہ حکم نافذ کرنےکےلیےنہیں بلکہ محض آزمائش اور امتحان کےلیےتھا۔ ایسا ہی ایک آزمائشی حکم اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے حضرت ابراہیم خلیل علیہ السلام کوبھی دیاتھا کہ وہ اپنے جان سے عزیز بیٹے کوذبح کردیں۔ وہ حکم بھی نافذ کرنےکےلیےنہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنےبیٹے کو ذبح کرنے کے لیے منہ کے بل زمین پر گرایا تو خداوند کریم نے ان کی بجائے ایک دنبہ بھیج دیا۔ علاوہ ازیں بعض اوقات اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو انبیاء علیہم السلام کے پاس ایسی صورت میں بھیجاجسے وہ نہیں پہنچانتےتھے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس فرشتے مہمان انسانوں کی شکل میں آئے اور ان کے کھانا نہ کھانے سےحضرت خلیل الرحمن علیہ السلام بھی خوف زدہ ہوئے۔ اسی طرح ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جبریل علیہ السلام مسافرآدمی کی صُورت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان، اسلام اور احسان کے متعلق سوالات کئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چلےجانے کےبعد انہیں پہچانا۔ اسی طرح ملک الموت موسیٰ علیہ السلام کے پاس غیر معروف شکل میں آئے۔ موسیٰ علیہ السلام ایک اجنبی آدمی کویوں بلااجازت اندرآتے دیکھ کربرداشت نہ کرسکے اورغیرطبعی سے متاثر ہوکر اسُ کےمنہ پرطمانچہ دے مارا جس سے ان کی آنکھ پھوٹ گئی جواس کی حقیقی آنکھ نہ تھی بلکہ ظاہری صورت کی عارضی آنکھ تھی۔ امامت جبریل علیہ السلام کی حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تصریح فرمائی ہے کہ نماز سے فراغت کے بعد جبریل علیہ السلام نے کہا:
|