Maktaba Wahhabi

129 - 191
(ھ) فقہاء ِ حدیث اور آئمہ اور شراح حدیث اس امر پرقریباً متفق ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نےجھوٹ نہیں بولا۔ قرآن وسنت صراحۃً اس پر شاہد ہیں کہ یہ جوکچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تعریض اور توریہ کےطور پر فرمایا اور یہ طریقہ ٔ گفتگو ادبیات کی جان ہے۔ دینی، سیاسی، کاروباری طبقے سب اس کا کھلے طور پر ا ستعمال کرتے ہیں۔ حافظ ابن قیم نے جس اختصار اور سنجیدگی سے اس کا تذکرہ فرمایا ہے اہل تحقیق کے لیے اس میں تسکین کا سامان موجود ہے۔ فَان قيل كَيفَ سَمَّاهَا إِبْرَاهِيم كذبات وَهِي تورية وتعريض صَحِيح۔ ۔ ۔ وَقد فتح الله الْكَرِيم بِالْجَوَابِ عَنهُ فَنَقُول الْكَلَام لَهُ نسبتان نِسْبَة إِلَى الْمُتَكَلّم وقصده وإرادته وَنسبَة إِلَى السَّامع وإفهام الْمُتَكَلّم إِيَّاه مضمونه فَإِذا أخبر الْمُتَكَلّم بِخَبَر مُطَابق للْوَاقِع وَقصد إفهام الْمُخَاطب فَهُوَ صدق من الْجِهَتَيْنِ وَ ان قصد خلاف الْوَاقِع وَقصد مَعَ ذَلِك إفهام الْمُخَاطب خلاف مَا قصد بل معنى ثَالِثا لَا هُوَ الْوَاقِع وَلَا هُوَ المُرَاد فَهُوَ كذب من الْجِهَتَيْنِ بالنسبتين مَعًا وَإِن قصد و معنى مطابقا صَحِيحا وَقصد مَعَ ذَلِك التعمية على الْمُخَاطب وإفهامه خلاف مَا قَصده فَهُوَ صدق بِالنِّسْبَةِ إِلَى قَصده كذب بِالنِّسْبَةِ إِلَى إفهامه وَمن هَذَا الْبَاب التورية والمعاريض وَبِهَذَا أطلق عَلَيْهَا إِبْرَاهِيم الْخَلِيل عَلَيْهِ السَّلَام اسْم الْكذِب مَعَ أَنه الصَّادِق فِي خَبره وَلم يخبر إالاصدقا فَتَأمل الخ ( مفتاح دارالسعادۃ ۳۹؃ ج۲) امام کا مطلب یہ ہےکہ سچ اور جھوٹ کی تشخیص میں نفس الامر اور متکلم کےقصد اور ارادہ کو بھی دخل ہے اس لحاظ سے اس کی تین صُورتیں ہوں گی۔ متکلم صحیح اور واقع کے مطابق کہے اور مخاطب کووہی سمجھانا چاہیے جوفی الحقیقت ہے۔ یہ دونوں لحاظ (واقعہ اور ارادہ) سے سچ ہے اگر متکلم خلاف واقعہ کہے اور مخاطب کواپنے مقصد سے آگاہ نہ
Flag Counter