Maktaba Wahhabi

128 - 191
مُناسب معلوم ہوتی ہے۔ حدیث غرانیق باتفاق ِمحدثین، اصول محدثین کے مطابق ساقط الاعتبار ہے اور جن الفاظ سے آئمہ حدیث نے اسے قابل استناد سمجھاہے وُہ نہ طبیعت کوکھٹکتی ہے نہ عقل ِ عام اس سے اباء کرتی ہے، معاریض ابراہیم علیہ السلام کی روایت اکثر کتب حدیث میں مروی ہے، اس کی سند اصول محدثین کےمُطابق صحیح ہے، آئمہ حدیث سے فنی طور پرکسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا۔ (الف) تعجب ہے آئمہ حدیث میں سے یہ حدیث نہ کسی کی طبیعت کو کھٹکتی ہے نہ ان کی ”عقل عام“ نے اس سے اباء کیا۔ (ب) متقدمین فقہاء سنت سے بھی کسی نے اس پر اشتباہ کااظہار نہیں کیاغالباً امام رازی پہلے آدمی ہیں جن کےمزاج پریہ حدیث گراں گزری اور انہوں نے دبےلفظوں میں اس کے انکارکی کوشش کی، لیکن امام نے اس چیز پر غور نہیں فرمایا کہ ان رواۃ سے اور بھی بہت سی روایات مروی ہیں بنابریں جس عیب کی بناء پر اسے ردکیاجائے گا اس کا اثرباقی احادیث پر بھی پڑے گا۔ اس لیے یہ ردنتائج کے لحاظ سے آسان نہیں۔ (ج) ابن قتیبہ ۲۷۶ھ نے ابراہیم بن سیار نظام جیسے معتزلی کے شبہات کا ذکر کیاہے۔ نظام کہتے ہیں کہ اکابر صحابہ نے (حذیفہ بن یمان ) حضرت عثمان کے پاس جھوٹ بولا۔ ابن قتیبہ فرماتےہیں کہ تعریض توریہ ہے اور بعض اوقات جھوٹ کی بھی اجازت ہے۔ اس ضمن میں الزام کے طور پر انہوں نے ابراہیم علیہ السلام کی ان معاریض کا ذکر فرمایاہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نظام ایسے غالی معتزلی کوبھی اس وقت اس حدیث پر اعتراض نہ تھا، نہ ہی اس کی عقل کوکھٹکتی تھی۔ ( تاویل مختلف الحدیث؃ ۴۲۔ ۵۳) (د) معتزلہ اورمتکلمین عقل کی پرستش اصُول اور عقائد کےمسائل میں کرتے تھے۔ اورصفات ِ باری کے مباحث میں سنت ان کی عقول پر گراں گزرتی تھی مگر فروع میں ان کی عقلوں سے اس احساس کا دباؤکم ہوجاتا ہے۔ ان کا خیال تھاکہ یہ مسائل بھی ظنی ہیں۔ ان پر ظنی دلائل سے استدلال صحیح ہے۔ آج کے عقل پرست حضرات نہ اصول میں حدیث کو معاف فرماتےہیں نہ فروع میں۔ عقول پر یہ اباء یہ کھٹکا دراصل موسم کی بات ہے۔
Flag Counter