Maktaba Wahhabi

81 - 195
الا اللّٰہ، إنّ للموتِ سکرات[1]’’اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں اورموت کی سختیاں ہیں ‘‘ یعنی موت کی تکلیف ہوتی ہے۔ پھر آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنگلی بلند کی، ہونٹوں کو حرکت ہوئی، سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا نے کان لگایا تو فرما رہے تھے: ’’ان انبیا، صدیقین، شہدا اورصالحین کے ساتھ جنہیں تو نے انعام سے نوازا۔ اے اللّٰہ! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ میں پہنچادے ،اے اللّٰہ رفیق اعلیٰ۔[2]آخری فقرہ تین بار دہرایا اور روح پرواز کر گئی، ہاتھ جھک گیا۔ آپ رفیق اعلی سے جاملے ۔انا للّٰہ وانا الیہ راجعون ! یہ سوموار 12 ربیع الاول کا دن اور ہجرت کا گیارھواں سال تھا۔ آپ کی رحلت کی یہ خبر صحابہ کرام میں فوراً پھیل گئی، ان پر دنیا تاریک ہوگئی، قریب تھا کہ وہ اپنے حواس کھو بیٹھتے ۔ کوئی دن اس سے زیادہ تابناک نہ تھا جب رسول اللّٰہ مدینہ تشریف لائے تھے اور کوئی دن اس سے تاریک اور اندھیرا نہ تھا جس میں آپ نے وفات پائی۔[3]صحابہ کرام رو رو کر بے حال ہو رہے تھے۔ سیدنا عمر کھڑے ہوکر کہنے لگے : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک وفات نہیں پائیں گے جب تک اللّٰہ منافقین کو فنا نہ کردے اور اس شخص کو قتل کی دھمکی دے رہے تھے جو یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں ۔ صحابہ کرام مسجد میں ان کے نزدیک حیرت اورغم کی تصویر بنے موجود تھے ۔[4]حضرت ابوبکر کو آپ کی وفات کی خبر ملی ۔ آئے ، لوگوں سے کوئی بات نہ کی، سیدھے حضرت عائشہ رضی اللّٰہ عنہا کے حجرے میں گئے ۔ آپ کا جسد مبارک دھاری دار یمنی چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔ چہرہ مبارک دیکھا ،اسے چوما اور روئے ۔پھرباہر تشریف لائے اورسورۃ آل عمران کی آیت نمبر 144 تلاوت کی : ﴿وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِہ الرُّسُلُ ۚ أَفَإِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انقَلَبْتُمْ عَلَىٰ أَعْقَابِكُمْ ۚ وَمَن يَنقَلِبْ عَلَىٰ عَقِبَيْہ فَلَن يَضُرَّ اللَّہ شَيْئًا ۗ وَسَيَجْزِي اللَّہ الشَّاكِرِينَ ﴾ أَمَّا بَعْدُ، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صلی اللّٰه علیہ وسلم فَإِنَّ مُحَمَّدًا صلی اللّٰه علیہ وسلم قَدْ مَاتَ، وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّہ،
Flag Counter