Maktaba Wahhabi

195 - 195
ابطال اور صحیح واقعات کی درست توجیہات پیش فرمائی ہیں ۔ خاص کر جنگِ جمل میں فتنہ پروری اور قتلِ طلحہ رضی اللہ عنہ کے ضمن میں جو غیر ثابت الزامات سید مودودی نے سیدنا مروان رضی اللہ عنہ پر عائد کئے ہیں ، حافظ صاحب نے ان کا مفصل و مدلل رد نقل کرکے قارئین کی تشفی کا سامان بہم پہنچایا ہے۔ باب چہارم کی فصل چہارم میں حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ نے جنگ صفین سے متعلق مبحث کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے اور اس سلسلے میں سید مودودی کی تقریباً ہر غلط بیانی اور صحیح واقعات سے غلط استدلال کی حقیقت قارئین کے سامنے واضح کردی ہے۔ اس فصل میں حافظ صاحب مختلف تاریخی حقائق و حوالہ جات سے قصاصِ عثمان رضی اللہ عنہ سے متعلق سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا اصل و صائب مؤقف ہدیۂ قارئین کرتے ہیں کہ ان کے پیشِ نظر صرف قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینا تھا ورنہ ان کو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت سے کوئی مسئلہ نہ تھا جیسے کہ سید مودودی نے باور کروانا چاہا ہے کہ’’سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پیشِ نظر قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ سے نہیں بلکہ خلیفۂ وقت سے خونِ عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینا تھا (خلافت و ملوکیت صفحہ 133)۔‘‘ اسی فصل میں سیدنا مودودی نے سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ، سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا شرحبیل بن السمط رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کرداروں پر کذب بیانی ، جھوٹی گواہیوں اور دیگر معاصی کی جو تہمتیں لگائی ہیں ، حافظ صاحب مختلف ادلّہ سے ان سب کا بھرپور رد کرتے ہوئے ان تاریخی اکاذیب کے تاربود اکھیڑ کر رکھ دیتے ہیں ۔ فصلِ پنجم میں حافظ صلاح الدین حفظہ اللہ ’’معاہدۂ تحکیم‘‘ پر گفتگو فرماتے ہیں اور اس سلسلے میں سید مودودی نے غیر درست تاریخی حقائق کے زیرِ اثر جو جو غلط بیانی اور واقعات کی غیر صائب تشریحات کی ہیں ، ان سے متعلق ان کا مفصل رد کرتے ہیں ۔ اسی فصل کے آخر میں حافظ صاحب علامہ ابن عبدالبر کی اس بے سند روایت پر بھی مفصل کلام کرکے اس کا غیر مؤثر ہونا بیان فرماتے ہیں جس کو بنیاد بنا کر سید مودودی نے اپنی کتاب میں یہ لغو بیانی کی ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ نہ دینے پر غیر جانبدار حضرات میں سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور مسروق بن اجدع رحمہ اللہ اور جانبین میں سے سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا ساتھ دینے پر سخت نادم تھے۔ جب کہ حقیقت یہ ہےکہ یہ روایت نہ روایتاً ثابت ہے اور نہ درایتاً قابلِ قبول۔
Flag Counter