عبد اﷲ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک قرابت دار کو کنکریاں پھینکتے ہوئے دیکھ کر یہ کہتے ہوئے منع کیا :" إِنَّھَا لَا تَصِیْدُ صَیْدًا وَلَا تَنْکَأُ الْعَدُوَّ، وإِنَّھَا تَفْقَأُ الْعَیْنَ وَتَکْسِرُ السِّنَّ " یعنی اس سے نہ شکارمارا جاسکتا ہے نہ دشمن کو قتل کیا جاسکتا ہے، لیکن یہ حرکت( کسی بھی راہ گیر کی ) آنکھ پھوڑسکتی اور دانت توڑسکتی ہے۔ لیکن اس نے ان کی سنی ان سنی کرتے ہوئے یہی حرکت دوبارہ کی تو فرمایا :
" أُحَدِّثُکَ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نَھَی عَنْہُ، ثُمَّ عُدْتَ تَخْذِفُ ؟ لَا أُکَلِّمُکَ أَبَدًا" ( مسلم : رضی اللہ عنہ 165 ) میں تجھ سے کہہ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے روکا ہے اور تو دوبارہ یہی حرکت کررہا ہے ؟ میں تجھ سے کبھی بات نہیں کروں گا۔
عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے ایک مرتبہ یہ حدیث بیان کی : " لَا تَمْنَعُوْا إِمَائَ اللّٰہِ عَنِ الْمَسَاجِدِ " اﷲ کی لونڈیوں ( عورتوں ) کو نماز کیلئے مسجد جانے سے نہ روکو۔ آپکے ایک فرزند نے اسکی مخالفت کی اورموجودہ حالات کا واسطہ دیتے ہوئے کہا کہ "اﷲ کی قسم ! ہم انہیں مسجد جانے سے ضرور روکیں گے" یہ سن کر عبد اﷲبن عمر رضی اﷲ عنہما نے زندگی بھر اپنے لڑکے سے بات نہیں کی(إبن ماجہ :16)
جب یہ سزا بھی کار گر نہ ہو تو پھر باپ کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اولاد کی تربیت کے لئے انہیں جسمانی سزا دے، لیکن ملحوظ رہے کہ یہ مار برائے تربیت ہو نہ کہ برائے مار۔ بلکہ مارنے سے زیادہ ڈرانے کے پہلو پر عمل کرے،اسلاف کے متعلق آتا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں نمایاں مقام پر کوڑا لٹکائے رکھتے تھے تاکہ بچوں میںکسی بے ادبی، گُستاخی اور بد تمیزی پر گرفت کا احساس ہو۔باپ اپنے بچوں کوبے تحاشہ نہ مارے اور نہ ہی ایسی مار کہ جس سے جسم پر نشان پڑجائیں اور چہرے پر نہ مارے۔
|