سیّاح نے مؤذن کو یاد دلایا کہ وہ" أشھد أنّ محمدا رسول اللّٰہ" کہنا بھول گیا تھا مؤذن نے کہا :"میں بھولا نہیں ہوں بلکہ جان بوجھ کر میں نے یہ الفاظ چھوڑے ہیں اسلئے کہ میں یہودی ہوں اور یہاں کے مسلمانوں کو اپنی عیّاشیوں سے اتنی فرصت نہیں کہ وہ مسجد میں آکر اذان دیں، انہوں نے مسلمان مؤذن کو تلاش کیا لیکن انہیں کوئی نہ مل سکا۔ بالآخر انہوں نے میری خدمات حاصل کیں، میں نے انہیں بتلایا کہ میں یہودی ہوں " أشھد أن لا إلہ إلاّ اللّٰہ " کا اقرار توکرتا ہوں لیکن" أشھد أنّ محمدا رسول اللّٰہ "کو نہیں مانتا۔ تو انہوں نے کہا کوئی بات نہیں، تم مذ کورہ الفاظ چھوڑکر ہی اذان دوہم تمہیں اتنی تنخواہ دیں گے،،[ العبر والتاریخ : 722]
ہندوستان میں 1857ء کی جنگِ اودھ کے موقعہ پر جب انگریز فوج اودھ کے قلعہ میں گھس گئی تو اودھ کے حکمران، نواب واجد علی شاہ نے کنیزوں کو حکم دیا کہ کوئی آکر مجھے جُوتا تو پہنائے، کنیزیں ابھی جُوتے ہی تلاش کررہی تھیں کہ ادھر انگریزی فوج نے قلعہ پر قبضہ کر لیا اور نواب صاحب کو کنیزوں کی ایک فوج کے ساتھ گھسیٹے ہوئے باہر لے آئے۔ ڈاکٹر اقبال کا فرمان سچ ہے :
آ تجھ کو بتاؤں میں تقدیرِ امم کیا ہے ؟
شمشیر وسنان اوّل، طاؤس ورُباب آخر
اسی لئے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے گورنروں پر یہ پابندی لگادی تھی کہ وہ چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہ کھائیں،ریشمی لباس نہ پہنیں، عمدہ گھوڑے استعمال نہ کریں،نہ اپنے گھر پر دربان مقرر کریں اور نہ گھوڑے پر نرم نمدہ ڈال کر سواری کریں۔ اس سے مقصود مسلمانوں کو عیش وعشرت میں پڑنے اور اہلِ روم وفارس کی شان وشوکت
|