Maktaba Wahhabi

52 - 215
لاؤ(بخاری،مسلم)۔بنو فزارہ کی ایک عورت کا مہر دو جوتیاں دینی ٹھہری تھیں اور آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کو برقرار رکھا(ترمذی)۔سیدنا ام سلیم رضی اللہ عنہا کا مہر یہی تھا کہ ابو طلحہ مسلمان ہو جائیں(نسائی)۔ایک صحابیہ کا مہر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ٹھہرا تھاکہ قرآن کی جو سورتیں ان کے خاوند کویاد ہیں وہ انہیں سکھادیں۔(بخاری،مسلم) لیکن حنفی مذہب ان احادیث کو نہیں مانتا،حدیث میں تو آپ نے دیکھ لیا کہ تھوڑا بہت جو مہر مقرر ہو جائے نکاح ہو جائے گا۔لیکن حنفی مذہب میں ہے کہ دس درہم سے کم مہر نہیں ہونا چاہیئے،چنانچہ حنفی مذہب کی اعلیٰ اور معتبر کتاب’’ہدایہ کتاب النکاح‘‘ص۳۰۴میں ہے: ’’واقل المھر عشرۃ دراہم ‘‘ ترجمہ:’’یعنی کم سے کم مہر دس درہم کا ہے‘‘ اس سے آگے لکھا ہے: ’’ولو سمی اقل من عشرۃ فلھا العشرۃ عندنا‘‘ ترجمہ:’’یعنی اگر کسی کا نکاح دس درہم سے کم مہر پر ٹھہرا کر ہوا ہے تو وہ نا معتبر ہے اس عورت کو مہر میں دس درہم ہی دلوائے جائیں ہمارا حکم یہی ہے‘‘ حنفی بھائیو!حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ کے سامنے ہے اور آپ مذہب کے امام اور فقہا کا قول بھی آپ کے سامنے ہے،جسے لینے کا ایمان تقاضا کرے اسے لے لیجئے اور جسے چھوڑنے میں آخرت کا نقصان نہ ہو اسے چھوڑیئے۔غور و تامل کے بعد فیصلہ کیجئے کہ کیا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مانیں گے یا قیاس علماء؟کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم اچھا یا فقہا کی رائے؟ایمان کے لائق کیا اورانکار کے قابل کیا؟
Flag Counter