Maktaba Wahhabi

69 - 215
سنا آپ نے!عصر کی نماز تو جائز لیکن صبح کی ناجائز۔حالانکہ حدیث میں دونوں کے جواز کا ذکر ہے ایک ہی حدیث ہے جس کے ایک حصّے کو مان کر دوسرے حصّے کا انکار ہے۔تعجب سا تعجب ہے اور افسوس جیسا افسوس ہے،اللہ رحم کرے۔اگر یہ حدیث ماننے کے قابل ہے تو دونوں جملے ماننے کے قابل ہیں اگر ماننے کے قابل نہیں تو دونوں نہیں اگر مقبول ہے تو پوری مقبول ہے اور اگر مردود ہے تو پوری مردود ہے۔یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کیسا؟یہ موم دلی پھر ساتھ ہی سنگدلی،عجب بھول بھلیاں ہے۔ہم نہیں سمجھ سکتے کہ یہ ایمان و انکار کا مجموعہ کیوں؟پس میرے بھائیو!توبہ کرو،حدیث پر ایمان رکھو جو اس کے خلاف ہو تم اس کے خلاف ہوجائے،کہیئے اب کیا ارادہ ہے حدیث کو مانو گے یا فقہ کو؟ مغرب سے پہلے کی سنتوں کا مسئلہ: (۲۶)’’عن عبداللّٰه ابن مغفل قال قال النبی صلی اللّٰه علیہ وسلم صلوا قبل صلوۃ المغرب رکعتین صلوا قبل صلوۃ المغربین رکعتین قال فی الثالثۃ لمن شاء کراھیۃ ان یتخذھا الناس سنۃ‘‘ ترجمہ:’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مغرب کے فرضوں سے پہلے دو رکعت ادا کر لیا کرو،مغرب سے پہلے دو رکعت پڑھ لیا کرو تیسری دفعہ کے حکم کے ساتھ ہی فرمایا جو اس بات کی ناپسندیدگی کی وجہ سے کہ لوگ اسے واجب نہ بنالیں‘‘(متفق علیہ،مشکوۃ،ج۱،ص۱۰۴،باب السنن) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس فرمان پر اس قدر عامل تھے کہ اذان مغرب ہوتے ہی ان دورکعتوں کو پڑھنے لگتے یہاں تک کہ اگر کوئی ناوقف انجان آجائے تو شائد سمجھ لے کہ نماز مغرب کی جماعت ہو چکی۔یہ حدیث صحیح مسلم کی ہے اور حدیث میں ہے یہ دو
Flag Counter