Maktaba Wahhabi

203 - 215
سیدناابن عباس رضی اللہ عنہ اور سیدن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ میں اس عورت کی عدت کے بارے میں اختلاف ہوتا ہے جو حمل سے ہو اور اس کے خاوند کا انتقال ہو جائے۔سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تو فرماتے ہیں کہ چار ماہ دس اور اس بچے کا ہوناان میں سے جو آخر میں ہو وہی عدت ہے،سیدن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا بچہ تو ہوتے ہیں عدت پوری ہو جاتی ہے خواہ عدت کی مدت سے پہلے ہو جائے،یہاں تک کہ انتقال کے ایک دن یا ایک گھنٹے بعد بھی ہو تو اس کی عدت پوری ہو گئی اور اگر چار ماہ دس گزر جائیں اور پھر بھی بچہ نہ ہوا ہو تو جب تک بچہ نہ ہو تو وہ عدت میں ہے۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی یہی فرمایا کہ میں اپنے اس بھتیجے کے فتویٰ سے متفق ہوں۔ہر ایک نے اپنے اپنے دلائل پیش کیئے اور باقاعدہ مذاکرہ علمیہ ہوا،محبت کے ساتھ مناظرانہ گفتگو ہوتی رہی مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔مجلس نے طول کھینچا اور کوئی فیصلہ نہ ہو سکا تو آخر یہ ٹھہرا کہ ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس اس کا صحیح علم ہے۔قاصد بھیج کر ان سے دریافت کیا جائے اگر کوئی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم مل جائے تو اس سے اس اختلافی مسئلے کا حل ہو۔قاصد دوڑا ہوا گیا اور مائی صاحبہ سے عرض کی کہ صحابہ رضی اللہ عنہ اس امر پر باہم مناظرہ کر رہے ہیں اور آپ کے پاس سب کے اتفاق سے میں بھیجا گیا ہوں،کیا اس بارے میں کوئی حدیث آپ کو یاد ہے؟ام المومنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا آؤ میں تمہیں حدیث سناؤں!سبیعۃ رضی اللہ عنہاکے خاوند کا انتقال ہوا اس وقت یہ دوجیا تھیں،تھوڑے دن ہی گزرے تھے جو ان کے ہاں بچہ تولد ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر وہ چاہیں تودوسرا نکاح کر لینے کی اجازت مرحمت فرمائی۔پس یہ حدیث صاف دلیل ہے کہ حاملہ عورت عدت وضع حمل ہے۔قاصد خوشی خوشی واپس آیا او ر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے مجمع میں یہ حدیث بیان فرمائی۔اللہ تعالیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما پر اپنی رضامندی کی
Flag Counter