Maktaba Wahhabi

152 - 215
کچھ اور کہنے لگتے ہیں۔پس دراصل یہ تو غلط گوئی ہے کہ حدیثوں میں اختلاف ہے یعنی تعارض اور مناقضہ ہے۔ فقہ کا تناقض: ہاں البتہ فقہ میں یہ منظر بہت صاف نظر آرہا اسی مسئلے میں اسی ہدایہ میں جو ہے وہ آپ اوپر پڑھ آئے ہیں کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ظہر کا آخری وقت اور عصر کا اول وقت وہ ہے جب ہر چیز کا سایہ اس سے دگنا ہو جائے لیکن اسی ہدایہ میں اسی صفحہ میں اسی عبارت کے ساتھ ہی موجود ہے ’’وقالا اذ اصار الظل مثلہ وھو روایۃعن ابی حنیفہ رحمۃ اللّٰه ‘‘ یعنی امام صاحب کے دونوں شاگرد محمد اور ابو یوسف کے نزدیک ظہر کا آخری اور عصر کا اول وقت ایک گنا سایہ ہونے پر ہو جاتاہے اور یہی ایک روایت امام صاحب سے بھی مروی ہے پس یہ اختلاف ہے کہ ایک اور دو جس طرح اس مں فرق ہے اسی طرح ان دونوں روایتوں میں جس طرح ایک دو نہیں اور دو ایک نہیں اسی طرح یہ دونوں روایتیں کسی تطبیق سے ایک نہیں ہو سکتیں۔اس لطف کو بھی ہم کبھی نہیں بھول سکتے کہ امام صاحب سے جو روایت خلاف حدیث تھی اسے تو لے لیا اور جو موافق حدیث تھی اسے چھوڑ دیا۔حنفی دوستو!اگر یہ الٹی گنگا نہ بہاؤ تو کیا حنفیت کی رونق جاتی رہے گی؟وہی روایت کیوں نہیں لیتے جو حدیث کے مطابق ہے؟ بہر صورت جس پر فقہا نے عمل رکھا ہے اور جس پر آج ہندوستا ن کے تمام حنفیوں کا عمل ہے وہ یہی ہے کہ ظہر کا آخر وقت اور عصر کا اول وقت دوگنا سایہ ہونے پر ہوتا ہے۔اس لئے حنفی مذہب اس حدیث پر عمل نہیں کرتا جو عنوان میں
Flag Counter