Maktaba Wahhabi

209 - 215
اس میں کوئی حرج نہیں چنانچہ اس شخص نے اس فتویٰ کے مطابق اس عورت سے نکاح کر لیا اور چونکہ آپ بیت المال کے افسر تھے تو چاندی کے ردی ٹکڑے لے کر انہیں صاف کھری چاندی کے بدلے بدلے لیا کرتے زیادہ دیتے اور کمل لیتے۔جب آپ مدینہ تشریف لائے اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان دونوں مسئلوں کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ پہلے شخص کے لئے اپنی ساس سے نکاح حدیث کی رو سے جائز نہیں اگرچہ اس کی لڑکی کو مجامعت سے پہلے ہی طلاق دے چکا ہے۔اور جب چاندی کا چاندی سے تبادلہ ہو تو دونوں طرف برابر ہونا مطابق حدیث شرط ہے یہ سن کر آپ واپس پلٹے اور اپنے پہلے مسئلے کی غلطی بتلانے کے لئے اس شخص کو تلاش کر کے اس کے ہاں پہنچے لیکن وہ نہ ملا تو آپ نے اس کی قوم والوں سے فرمایا کہ میرا پہلا فتویٰ غلط تھا۔صحیح یہ ہے کہ یہ شخص اس عورت سے نکاح نہیں کر سکتا،پھرآپ صرافے کے بازار میں پہنچے اور وہاں اعلان کیا کہ پہلے جو میں کرتا رہا وہ خلاف شرع تھا چاندی چاندی کے بدلے برابر ہونی چاہیئے وزن اگر یکساں نہ ہو تو تبادلہ حلال نہیں۔ نصیحت: میں نے نہایت نیک نیتی سے اپنی مسلمان بھائیوں کے سامنے بطور مثا ل یہ مسائل پیش کر دیئے ہیں حدیثیں نقل کردیں ہیں جو اپنے معنی اور مطلب میں بالکل واضح ہیں۔اور ان کے بالمقابل فقہ کی عبارتیں بھی نقل کر دیں ہیں جو اپنے مطلب میں بہت واضح ہیں جو حدیث میں ہے اس کے بالکل بر خلاف فقہ میں ہے اس فرق کی وضاحت کے بعد میں اپنے بھائیوں کی خدمت میں عرض کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ للہ غور کرو۔فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں کسی اور کی نہ مانو،مسلمان ہونے کے معنی میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ اللہ کے سوال کوئی عبادت کے لائق نہیں،اور
Flag Counter