Maktaba Wahhabi

385 - 413
کردو] اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق فرمایا:[وہ اچھا آدمی ہے! اگر وہ رات کو قیام کرے] اور اسی طرح لوگوں کو ان کے حالات کے مطابق وصیتیں فرمائیں۔] آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو خصوصی طور پر یہی وصیت فرمائی کیونکہ ان کے حالات اسی کا تقاضا کرتے تھے۔ وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عبادت کے لیے وقف ہوچکے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جن باتوں کی وصیت فرمائی،وہ ہمیشہ سے عبادت گزاروں کا امتیازی نشان رہی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس سلسلے میں ممکنہ حد تک قلیل ترین چیزوں کی وصیت فرمائی، کیونکہ اگر آپ اس سے زیادہ کی بھی وصیت فرماتے، تو وہ اس سے چمٹ جاتے اور ویسے ہی اس پر مداوت کرتے، جیسی کہ انہوں نے اس وصیت پر کی اور اس طرح شاید انہیں مشقت پیش آتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وصیت کے ذریعے انہیں کچھ ایسے اعمال بتلا دیے، جو ان کے لیے مناسب ترین تھے اور باقی کا معاملہ ان پر چھوڑادیا، کہ وہ بقدر ہمت جتنے چاہیں کریں۔ ان اعمال کی ادنی حد مقرر فرمادی اور اعلیٰ حد سے خاموشی اختیار فرمائی۔ بات یہ ہے کہ نیکی کے اعمال میں لوگ برابر نہیں ہوتے۔ بعض کے لیے عبادت کی غرض سے انقطاع بہترین ہوتا ہے اور بعض کے لیے صحبت علماء اور پڑھنا پڑھانا، کچھ دوسروں کے لیے سفر و جہاد بہترین ہے۔ اس سلسلے میں تنہا اعمال کی فضیلت کو نہیں دیکھا جاتا، بلکہ کرنے والے شخص کو بھی پیش نظر رکھا جاتا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں کو ایک ہی بات کی وصیت نہیں فرمایا کرتے تھے، بلکہ ہر شخص کو اس کی
Flag Counter