Maktaba Wahhabi

386 - 413
استعداد کے مطابق وصیت فرماتے تھے۔ ۵۔ تعلیم میں تنوع: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وفود حاضر ہوتے رہتے تھے۔ تعلیم دیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے حالات اور ضروریات کو ملحوظِ خاطر رکھتے۔ سیرت طیبہ سے متعدد شواہد اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں۔ ایسے ہی شواہد میں سے دو درج ذیل ہیں : ا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وفد عبدالقیس حاضر ہوا، توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایتِ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ’’وَأَنْ تُوَدُّوْا إِلَيَّ خُمسَ مَا غَنِمْتُمْ۔‘‘[1] ’’ تمہیں جو غنیمت حاصل ہو،اس کا پانچواں حصہ مجھے ادا کرنا۔‘‘ ب: حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے،تو آپ نے ان سے جو عہد لیا،وہ خود جریر رضی اللہ عنہ کے الفاظ میں یوں تھا: ’’ بَا یَعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم عَلَی إِقَامِ الصَّلاَۃِ، وَاِیْتَائِ الزَّکَاۃِ، وَالنُّصْحِ لِکُلِّ مُسْلِمٍ۔‘‘[2] ’’ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز قائم کرنے، زکاۃاداکرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔‘‘ حدیث کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ رقم طراز ہیں : ’’ وَکَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَوَّلَ مَا یَشْتَرِطُ بَعْدَ التَّوْحِیْدِ إِقَامَۃَ الصَّلاَۃِ لِأَنَّھَا رَأْسُ الْعِبَادَاتِ الْبَدَنِیَّۃِ، ثُمَّ أَدَائَ الزَّکَاۃِ لِأَنَّھَا
Flag Counter