Maktaba Wahhabi

379 - 413
[ اس بارے میں باب کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نصیحت و تعلیم میں ان [صحابہ] کا خیال رکھنا تاکہ وہ بیزار نہ ہوجائیں۔] ۲۔[بَابُ مَنْ جَعَلَ لِأَھْلِ الْعِلْمِ أَیَّامًا مَعْلُوْمَۃً]۔ [1] [کسی کے اہل علم کے لیے دن مقرر کرنے کے متعلق باب] ۳۔[بَابُ الْمَوْعِظَۃِ سَاعَۃً بَعْدَ سَاعَۃٍ]۔ [2] [وقفہ کے ساتھ وعظ و نصیحت کرنا] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے حدیث شریف کی شرح بیان کرتے ہوئے تحریر کیا ہے: ’’ وَفِیْہِ رِفْقُ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِأَصْحَابِہٖ، وَحُسْنِ التَّوَصُّلِ إِلٰی تَعْلِیْمِھِمْ،وَتَفْھِیْمِھِمْ لِیَأْخُذُوْا عَنْہُ بِنِشَاطٍ لاَ عَنْ ضَجْرٍ وَلاَ مَلَلٍ، وَیُقْتَدٰی بِہِ فِيْ ذٰلِکَ، فَإِنَّ التَّعْلِیْمَ بِالتَّدْرِیْجِ أَخَفُّ مَؤُوْنَۃً، وَأَدْعٰی إلَی الثُّباتِ مَنْ اَخْذِہِ بِالْکَد وَالْمُغَالَبَۃِ۔‘‘[3] ’’ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابہ کے ساتھ شفقت اور اچھے طریقے سے انہیں تعلیم دینا اور سمجھانا [ثابت ہوتا]ہے تاکہ وہ بیزاری اور اکتاہٹ کی بجائے شوق و ذوق سے سیکھیں اور اسی طریقے کو تعلیم میں اپنایا جائے۔ کیونکہ کبیدہ خاطر اور مجبور کرکے دی گئی تعلیم کے مقابلے میں تدریجی تعلیم کا بوجھ نسبتاً خفیف اور پختگی زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ ۳۔ بعض باتیں مخصوص طلبہ کو بتلانا: ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا احوالِ طلبہ کو ملحوظِ خاطر رکھنا اس بات سے بھی آشکارا
Flag Counter