طرف اُٹھو] سے استدلال کرتے ہوئے اس کو مستحب قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے [احتراماً کسی کی خاطر قیام ]میں اور [ضرورت کے پیش نظر کسی کی طرف اُٹھنے میں جیسے کہ استقبال کی خاطر، سواری سے اُتارنے میں تعاون وغیرہ کے لیے ]میں فرق کو ملحوظ نہیں رکھا۔ پہلی قسم کا قیام مکروہ ہے، اور حدیث کا مقصود دوسری قسم کا قیام ہے۔ امام احمد کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ [اپنے سردار کی طرف اُٹھو اور اس کو سواری سے اُتارو]اس پر دلالت کناں ہیں۔ اس کی سند [حسن]ہے اور حافظ ابن حجرنے فتح الباری میں اس کو قوی قرار دیا ہے۔‘‘
۲۔شاگرد کی قرأت سننا:
امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا :
’’ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم :’’ اِقْرَأْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ‘‘۔
قَالَ:’’ فَقُلْتُ:’’ یَا رَسُْولَ اللّٰہِ!’’ أَقْرَأُ عَلَیْکَ، وَعَلَیْکَ أُنْزِلَ؟‘‘۔
قَالَ:’’إِ نِّيْ أَشْتَھِي أَنْ أَسْمَعَہٗ مِنْ غَیْرِيْ‘‘۔
فَقَرأْتُ النِّسَآئَ، حَتّی إِذَا بَلَغْتُ:{فَکَیْفَ اِذَا جِِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ بِشَھِیْدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلَی ھَؤُلَائِ شَھِیْدًا}[1]رَفَعْتُ رَأْسِيْ، أَوْغَمَزَنِيْ رَجُلٌ إِلیٰ جَنْبِيْ، فَرَفَعْتُ رَأْسِيْ، فَرَأَیْتُ دُمُوْعَہٗ تَسِیْلُ۔‘‘[2]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’مجھ پر قرآن پڑھو۔‘‘
انہوں نے بیان کیا:’’ تو [یعنی یہ سن کر ]میں نے عرض کیا:’’ میں آپ پر
|