Maktaba Wahhabi

382 - 413
وجہ سے بعض لوگوں کو بتلانا۔اور بعض کو نہ بتلانا ] ‘‘ علامہ عینی رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے: ’’ فِیْہِ أَنَّہٗ یَجِبُ أَنْ یُخَصَّ بِالْعِلْمِ قَوْمٌ فِیْھِمُ الضَّبْطُ وَصِحَّۃُ الْفَھْمِ، وَلاَ یُبْذَلُ الْمَعْنَی اللَّطِیْفُ لِمَنْ لاَ یَسْتَأْھِلُہٗ من الطَّلَبَۃِ، وَمَنْ یَّخَافُ عَلَیْہِ التَّرْخُّصَ، وَالاِ تّکَالَ لِتَقْصِیْرِ فَھْمِہٖ۔ ‘‘[1] ’’ اس [حدیث]سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات ضروری ہے کہ اہل ضبط اور صحیح فہم والوں ہی کو علم کے لیے مخصوص کیا جائے۔ نا اہل شاگردوں،رخصتیں ڈھونڈنے کی جستجو میں لگے رہنے والوں اور اپنی کم فہمی کی بنا پر بھروسا کرنے والوں کے روبرو لطیف معانی بیان نہ کیے جائیں۔‘‘ حدیث شریف میں دیگر فوائد: اس حدیث شریف میں موجود دیگر متعدد فوائد میں سے تین درج ذیل ہیں : ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا راستے میں تعلیم دینا۔ ٭ اپنے شاگرد کو اس کے نام کے ساتھ مخاطب کرنا۔ ٭ تعلیم سے پیشتر شاگرد کو مکمل طور پر متوجہ کرنے کی غرض سے تین دفعہ پکارنا۔ [2] ۴۔ گونا گوں وصیتیں : ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طلبہ کے حالات کو پیش نظر رکھنے کے دلائل میں سے ایک بات یہ ہے کہ آپ کی وصیتوں اور نصیحتوں میں گلہائے رنگ رنگ کی طرح تنوع پایا جاتا ہے۔ مختلف اشخاص کو پندو نصیحت فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی استعداد اور صلاحیت کو
Flag Counter