Maktaba Wahhabi

303 - 413
بلکہ ان کے اشکال کو دور فرمایا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے میں لکھا ہے: ’’ وَالْغَرَضُ کُلُّہٗ أَنَّھَا اسْتَشْکَلَتْ وُقُوعَ الْعَذَابِ عَلَی مَنْ لَا إِرَادَۃَ لَہٗ فِي الْقِتَالِ الَّذِيْ ھُوَ سَبِیْلُ العُقُوبَۃِ، فَوَقَعَ الْجَوَابُ بِأَنَّ الْعَذَابَ یَقَعُ عَامًا لِحُضُورِ آجَالِھِمْ، وَیُبْعَثُوْنَ بَعْدَ ذَلِکَ عَلیٰ نِیَّاتِھِمْ‘‘۔[1] ’’اصل مقصود یہ ہے کہ انہیں یہ اشکال پیدا ہوا کہ سزا کا سبب [کعبۃ اللہ پر چڑھائی کا ارادہ ]عام لوگوں میں موجود نہ ہو نے کے باوجود ان پر عذاب کیونکر آئے گا، تو جواب دیا گیا کہ اس وقت ان کی موت کا مقرر وقت آپہنچنے کی بنا پر عذاب عام آئے گا، پھر وہ اس کے بعد اپنی نیتوں کے مطابق اُٹھائے جائیں گے۔‘‘ ۳۔تقدیر کے بعد عمل کے متعلق سوال جواب: امام ابن حبان رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں : ’’ قَالَ عُمَرُبْنُ الْخَطَّابِ رضی اللّٰه عنہ :’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! نَعْمَلُ فِي شَیْئٍ نَأْتَنِفُہ أَمْ فِيْ شَیْئٍ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ؟‘‘۔ قَالَ:’’ بَلْ فِي شَیْئٍ قَدْ فُرِغَ مِنْہُ‘‘۔ قَالَ:’’ یَا عُمَرُ! لَا یُدْرَکُ ذٰلِکَ إِلاَّ بِالْعَمَلِ‘‘۔ قَالَ:’’ إِذًا نَجْتَھِدُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم !‘‘۔ [2]
Flag Counter