٭ جنت میں داخل کرنے والے اعمال کا ذکر فرماتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت پر آسانی اور سہولت فرمائی۔ [کسی نفس کو آزاد کرنے ]سے جنت میں داخل کروانے والے اعمال کا آغاز فرما کر بات کو یہاں تک پہنچایا کہ کچھ اور کرنے کی استطاعت نہ ہو تو [خیر کے علاوہ اپنی زبان کو روکے رکھو]۔ [1]
۴۔ اچھے سوال کی بنا پر ایک اور بدو کی تعریف:
امام مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے رو ایت نقل کی ہے کہ:
’’ إِنَّ أَعْرَابِیًّا عَرَضَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَھُوَ فِيْ سَفَرٍ، فَأَخَذَ بِخِطَامِ نَاقَتِہٖ أَوْ بِزِمَامِھَا، ثُمَّ قَالَ:’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! أَوْیَا مُحَمَّدُ صلی اللّٰه علیہ وسلم ! أَخْبِرْنِي بِمَا یَُقَرِّبُنِيْ مِنَ الْجَنَّۃِ وَمَا یُبَاعِدُنِيْ مِنَ النَّارِ‘‘۔
قَالَ:’’ فَکَفَّ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم، ثُمَّ نَظَرَ فِي أَصْحَابِہٖ، ثُمَّ قَالَ:’’لَقَدْ وُفِّقَ أَوْ لَقَدْ ھُدِيَ۔‘‘ قَالَ:کَیْفَ قُلْتُ؟
قَالَ:فَأَعَادَ۔
فَقَالَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم :’’ تَعْبُدُ اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُ بِہٖ شَیْئًا، وَتُقِیْمُ الصَّلَاۃَ، وَتُوْتِي الزَّکَاۃَ، وَتَصِلُ الرَّحِمَ، دَعِ النَّاقَۃَ‘‘۔[2]
’’بے شک ایک اعرابی دورانِ سفر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو آیا، آپ کی اونٹنی کی لگام کو تھاما، پھر کہنے لگا:’’ یا رسول اللہ !( صلی اللہ علیہ وسلم )یا[3]…یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ عمل بتلائیے جو مجھے جنت سے قریب کر دے اور [جہنم کی ]آگ سے دور کر دے۔‘‘
راوی نے بیان کیا:’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رُک گئے، پھر آپ نے اپنے صحابہ کی طرف دیکھا، پھر ارشاد فرمایا:’’ بلا شبہ یہ [بدو اپنے سوال میں ]توفیق خیر عطا
|