Maktaba Wahhabi

396 - 413
’’ ظاہری طور پر تو علم کے لیے حکم ہے کہ وہ انہیں مبارک ہو اورمقصود ان کے لیے دعا ہے اور حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ان کے بارے میں علم میں راسخ اور ماہر ہونے کی اشارۃً خبر ہے۔‘‘ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَفِیْہِ تَبْجِیْلُ الْعَالِمِ فُضَلاَئَ أَصْحَابِہٖ، وَتَکْنِیَتُھُمْ، وَجَوَازُ مَدْحِ الْإِنْسَانِ فِيْ وَجْھِہٖ إِذَا کَانَ فِیْہِ مَصْلَحَۃٌ، وَلَمْ یَخَفْ عَلَیْہِ إِعْجَابٌ وَنَحْوَہ لِکَمَالِ نَفْسِہٖ، وَرُسُوْخِہٖ فِي التَّقْوٰی۔‘‘[1] ’’ اس [حدیث ]سے عالم کا اپنے باصلاحیت شاگردوں کی توقیر کرنا، ان کی کنیتوں کے ساتھ ان کو مخاطب کرنا، کسی انسان کے روبرو کسی مصلحت کے پیش نظر اس کی تعریف کرنا، جب کہ عظمت اور تقویٰ میں پختگی کی بنا پر اس کے متعلق خود پسندی کا اندیشہ نہ ہو ثابت ہوتا ہے۔‘‘ حدیث شریف میں دیگر فوائد: حدیث شریف میں موجود دیگر فوائد میں سے دو درج ذیل ہیں : ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا علمی مسئلہ کے بارے میں شاگرد سے استفسارکرنا۔[2] اس سلسلے میں علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا ہے: إِنَّ سُؤَالَ الرَّسُولِ صلی اللّٰه علیہ وسلم مِنَ الصَّحَابِيِّ فِيْ بَابِ الْعِلْمِ إِمَّا أَنْ یَّکُوْنَ لِلْحَثِّ عَلَی الْاِسْتِمَاعِ لِمَا یُرِیْدُ أَنْ یُلْقِيَ عَلَیْہِ، أو لِلْکَشْفِ عَنْ مِقْدَارِ فَھْمِہٖ وَمَبْلَغِ عِلْمِہٖ۔[3]
Flag Counter