Maktaba Wahhabi

401 - 413
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ مَنْ سَرَّہُ أَنْ یَقْرَأَ الْقُرْآنَ رَطْبًا کَمَا أُنْزِلَ فَلْیَقْرَأْہُ عَلَی قِرَائَۃِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ رضی اللّٰه عنہ ‘‘۔[1] ’’ جو قرآن کو اسی تازگی کے ساتھ پڑھنا چاہے جیسا کہ نازل ہوا تو وہ ابن ام عبد رضی اللہ عنہما کی قر اء ت کے مطابق پڑھے۔‘‘ اللہ اکبر ! کس قدر بلند و بالا تھی یہ عزت افزائی! کس قدر عظیم الشان تھی یہ تعظیم و تکریم! ناطق وحی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے اپنے متعلق تعریف و توصیف کے کلمات سننے والے کان کس قدرخوش نصیب اور بخت والے تھے۔ ذَلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُوا لْفَضْلِ الْعَظِیْمِ۔ ان نیم خواندہ مدرسین پر صد افسوس جو یہ سمجھتے ہیں کہ شاگردوں کی تعریف کرنے سے ان کی اپنی شخصیت کمزور اور ہیبت متاثر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے کہ حق دار کو اس کا حق دینے سے مدرس کی شخصیت کمزور نہیں ہوتی، بلکہ قوی ہوتی ہے اور اس کے اپنے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ ۴۔ عمدہ تلاوت کی بنا پر سالم رضی اللہ عنہ کی تعریف: امام بزار رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ: ’’ أَنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم سَمِعَ سَالِمًا مَوْلَی أَبِيْ حُذَیْفَۃَ رضی اللّٰه عنہما یَقْرَأُ مِنَ اللَّیْلِ، فَقَالَ:’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِيْ جَعَلَ فِيْ أُمَّتِيْ مِثْلَہٗ ‘‘۔[2]
Flag Counter