Maktaba Wahhabi

286 - 413
کپڑے میں داخل کر دیا اور آپ کی طرف دیکھنے لگا۔ پس جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے [نزولِ وحی کے وقت طاری ہونے والی کیفیت] دور کی گئی، تو آپ نے فرمایا:’’ ابھی عمرہ کے بارے میں سوال کرنے والا کہاں ہے؟‘‘ تو وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اُٹھا۔آپ نے فرمایا:’’ اپنے جبہ کو اُتار دو، تم پر [یعنی تمہارے جسم پر ]خوشبو کا جو کوئی اثر ہو اس کو دھو ڈالو او ر اپنے عمرے میں وہی کچھ کرو، جو تم حج میں کیا کرتے ہو۔‘‘ اس حدیث شریف سے واضح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے سوال کا جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کی۔ وحی کے ذریعہ جواب معلوم ہونے پر سائل کو بلا کر جواب کی خبر دی۔ امام نووی رحمہ اللہ تعالیٰ نے شرح حدیث میں تحریر کیا ہے: ’’ وَفِيْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ دَلِیْلٌ لِلْقَاعِدَۃِ الْمَشْھُورَۃِ أَنَّ الْقَاضِيَ أَوْ الْمُفْتِي إِذَا لَمْ یَعْلَمْ حُکْمَ الْمَسأَلَۃِ أَمْسَکَ عَنْ جَوَابِھَا، حَتَّی یَعْلَمَہٗ أَوْ یَظْنَّہٗ بِشَرْطِہٖ۔‘‘[1] ’’یہ حدیث اس مشہور قاعدہ کی دلیل ہے کہ جب قاضی یا مفتی کو [پیش آمدہ]مسئلہ کے بارے میں علم نہ ہو، تو جواب سے اس وقت تک خاموش رہے، جب تک کہ اس کو اس کا علم یا (شرعی)شرط کے ساتھ ظن (غالب) حاصل ہو جائے۔‘‘ ۴۔آیت میراث کے نزول تک جواب سے سکوت: امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ تعالیٰ نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ وہ بیان کرتے ہیں : ’’ مَرِضْتُ، فَجَائَ نِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم یَعُوْدُنِيْ وَأَ بُوْبَکْرٍ رضی اللّٰه عنہ،
Flag Counter