Maktaba Wahhabi

301 - 413
تَسْمَعُ شَیْئًا لَا تَعْرِفُہٗ إِلاَّ رَاجَعَتْ فِیْہِ حَتّی تَعْرِفَہٗ ‘‘۔ فَلَوْ لَمْ یَکُنْ ذَلِکَ مِنْ سُنَنِ الْإِسْلَامِ لَمَا أَقَرَّھَا علیہ السلام ‘‘۔[1] ’’اس [حدیث]میں اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص کچھ سنے اور اس کو سمجھ نہ سکے،تو اس بارے میں مراجعت [یعنی سوال جواب]کرے، یہاں تک کہ اس کو سمجھ جائے اور یہ روایت کے ان الفاظ سے مأخوذ ہے کہ [وہ جب بھی کوئی ایسی بات سنتیں جس کو سمجھ نہ پاتیں تو وہ ا س کے متعلق سوال جواب کرتیں یہاں تک کہ وہ اس کو سمجھ جاتیں ]۔ اگر ان کا یہ طرزِ عمل سنن اسلام میں سے نہ ہوتا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی انہیں ایسا نہ کرنے دیتے۔‘‘ امام ابن ابی جمرہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی لکھا ہے : ’’ لٰکِنْ ھٰذِا لَیْسَ عَلَی الْعُمُوْمِ،وَإِنَّمَا ذٰلِکَ لِمَنْ فِیْہِ أَھْلِیَّۃٌ، وَإِنَّمَا الْعَوَامُ وَظِیْفَتُھُمْ السُّؤالُ‘‘[2] ’’لیکن یہ طرزِ عمل سب کے لیے نہیں، یقینا یہ تو صرف صلاحیت رکھنے والوں کے لیے ہے، عام لوگوں کا کام صرف سوال کرنے تک ہے۔ ‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالیٰ رقم طراز ہیں : ’’وَفِی الْحَدِیْثِ مَا کَانَ عِنْدَ عَائِشَۃَ رضی اللّٰه عنہا مِنَ الْحِرْصِ عَلیٰ تَفَھُّمِ مَعَانِيْ الْحَدِیْثِ، وَأَنَّ النَّبِیَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم لَمْ یَکُنْ یَتَضَجَّرُ مِنَ الْمُرَاجَعَۃِ فِي الْعِلْمِ‘‘[3] ’’[اس]حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ معانی حدیث کو سمجھنے کی خاطر عائشہ رضی اللہ عنہا کی خواہش کس قدر زیادہ تھی اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم علمی مسائل میں
Flag Counter