’’وَاسْتُدِلَّ بِہٖ عَلَی النَّھيِ عَنْ کَثْرَۃِ الْمَسائِلِ وَالتَّعَمُّقِ فِيْ ذَلِکَ۔ قَالَ الْبَغْوِيُّ فِي شَرح السُّنَّۃِ:’’ اَلْمَسَائِلُ عَلَی وَجْھَیْنِ:
أَحَدُھُمَا:مَا کَانَ عَلیٰ وَجْہِ التَّعْلِیْمِ لِمَا یَحْتَاجُ إِلَیْہِ مِنْ أَمْرِ الدِّیْنِ فَھُوَ جَائِزٌ، بَلْ مَاْمُورٌ بِہٖ لِقَوْلِہٖ تَعَالَی:{فَسْئَلُوْا أَھْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ}[1]، وَعَلیٰ ذَلِکَ تَتَنَزَّلُ أَسْئَلِۃُ الصَّحَابَۃِ عَنِ الْأَنْفَالِ وَالْکَلَالَۃِ وَغَیْرِھِمَا۔
وَثَانِیْھِمَا :مَا کَانَ عَلَی وَجْہِ التَّعَنُّتِ وَالتَّکَلُّفِ،وَھُوَ الْمُرَادُ فِي ھٰذَا الْحَدِیْثِ۔ وَاللّٰہُ تَعَالَی أَعْلَمُ۔ ‘‘[2]
’’کثرتِ سوال اور ان کی گہرائی میں جانے کی ممانعت پر اس [حدیث] سے استدلال کیا گیا ہے۔ بغوی رحمہ اللہ نے شرح السنہ میں بیان کیا ہے:’’سوالات دو طرح کے ہوتے ہیں :
ان میں سے پہلی قسم جو کہ دین کے ضروری معاملات کے بارے میں تعلیمی مقصد کے پیش نظر ہوں۔ ایسے [سوالات]جائز ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد گرامی [ترجمہ:اور اگر تم نہ جانتے ہو تو اہل الذکر سے سوال کرو]کی بنا پر ان کے پوچھنے کا حکم ہے۔ صحابہ کے انفال، کلالہ وغیرہ کے بارے میں سوالات اسی ضمن میں آتے ہیں۔
دوسری قسم [کے سوالات وہ ہیں ]جو کہ تکلف و تصنع سے کیے گئے ہوں اور مشقت میں ڈالنے کی خاطر ہوں۔ اس حدیث کا مقصود اسی قسم کے سوالات ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘
|