Maktaba Wahhabi

280 - 413
کاٹتے وقت رطب و یابس،اچھی اور بری کھیتی میں فرق روا نہیں رکھتی،اسی طرح بعض لوگوں کی زبانیں بولتے وقت اچھی اور بری بات میں تمیز نہیں کرتیں [بلکہ جو منہ میں آیا کہہ دیا۔]‘‘ ٭ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلوب اشارۃ استعمال فرمایا۔ آپ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:’’ اس کو روک کر رکھو ‘‘ علامہ مبارک پوری رحمہ اللہ تعالیٰ رقم طراز ہیں : ’’ وَإِیْرَادُ اِسْمِ الْإِشَارَۃِ لِمَزِیْدِ التَّعْیِیْنِ أَوْ لِلتَّحْقِیْرِ، وَھُوَ مَفْعُوْلُ [کُفَّ]، وَإِنَّمَا أَخَذَ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ بِلِسَانِہٖ وَأَشَارَ إِلَیْہِ مِنْ غَیْرِ إکْتِفَائِ بِالْقَوْلِ، تَنْبِیْھاً عَلَی أَنَّ أَمْرَ اللِّسَانِ صَعْبٌ۔‘‘[1] ’’اسم اشارہ کا لانا تعیین مزید یا اظہار حقارت کی خاطر تھا اور وہ [کف ] [یعنی روکو ] کا مفعول ہے [مراد یہ ہے کہ اس کو روکے رکھو]۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کو پکڑا، صرف اپنے قول پر اکتفا نہ کیا، بلکہ زبان کے معاملہ کی سنگینی پر تنبیہ کی غرض سے اس کی طرف اشارہ [بھی ]فرمایا۔‘‘ خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سائل کی ضرورت کے پیش نظر بسااوقات پوچھی گئی بات سے زیادہ بھی ارشاد فرما یا کرتے تھے۔فَصَلَوٰتُ رَبِّيْ وَسَلَامُہٗ عَلَیْہِ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
Flag Counter