Maktaba Wahhabi

271 - 413
عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ}، فَزَادَ فِي الْجَوَابِ إِرْشَادًا وَھِدَایَۃً، کَمَا ھُوَ حَالُ الْحَکِیْمِ الْعَارِفِ بِالدَّائِ وَالدَّوَائِ، فَقَالَ:’’ اَلْحِلُّ مَیْتَتُہٗ‘‘۔[1] ’’جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سمندر کے پانی کے بارے میں سوال کیا گیا اور آپ ان کی اس کے حکم سے بے خبری سے آگاہ ہوئے، تو آپ نے اس پر اس کے شکار کے حکم سے ان کی بے خبری کو قیاس فرمایا،خصوصاً اللہ تعالیٰ کے ارشادِ عام کے بعد کہ [تم پر مردار کو حرام کیا گیا] [2]آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد و ہدایت کی غرض سے زائد جواب دیا،جیسا کہ بیماری اور علاج سے باخبر دانا شخص کرتا ہے اور فرمایا:’’ اس کا مردار حلال ہے۔‘‘ امام ابن العربی رحمہ اللہ تعالیٰ نے تحریر کیا ہے: ’’ وَذَلِکَ مِنْ مَحَاسِنِ الْفَتْوٰی أَنْ یُّجَائَ فِي الْجَوَابِ بِأَکْثَرَ مِمَّا سُئِلَ عَنْہُ تَتْمِیْمًا لِلْفَائِدَۃِ، وَإِفَادَۃً لِعِلْمٍ غَیْرِ الْمُسْؤوْلِ عَنْہُ‘‘۔[3] ’’محاسن فتوی میں سے ہے کہ اتمام فائد ہ کی غرض سے پوچھی گئی بات سے زائد جواب دیا جائے اور نہ پوچھی گئی بات کے متعلق [بھی]بتلایا جائے۔‘‘ علامہ امیر صنعانی نے مذکورہ بالا کلام کی شرح میں لکھا ہے: ’’ وَیَتأَکَّدُ ذَلِکَ عِنْدَ ظُھورِ الْحَاجَۃِ إِلَی الْحُکْمِ کَمَا ھُنَا، لِأَنَّ مَنْ توقَّفَ فِي طُھُوْرِیَّۃِ مَائِ الْبَحْرِ فَھُوَ عَنِ الْعِلْمِ بِحِلِّ مَیْتَتِہٖ مَعَ تَقَدُّمِ تَحْرِیْمِ الْمَیْتَۃِ أَشَدُّ تَوَقُّفًا۔‘‘[4] ’’[کسی چیز کا]حکم جاننے کی ضرورت کے ظاہر ہونے پر،جیسا کہ اس مقام پر
Flag Counter