ابوبکر الجصاص حنفی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’نسخ کا مطلب حکم یا تلاوت کی مدت بیان کر دینا ہے۔‘‘ [1]
آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’قرآن کی کسی آیت پر جب نسخ کا حکم لگایا جاتا ہے تو اس سے مراد آیت کا ازالہ نہیں ہوتا بلکہ مدعا یہ ہوتا ہے کہ آیت پر جو حکم لگا ہے یا لگا تھا وہ اس وقت کے زمانہ کے اعتبار سے تھا۔ حالات کے بدل جانے پر کسی طرح بھی وہ حکم مطلقاً ممنوع نہیں ہوتا۔‘‘ [2]
علامہ تاج السبکی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’أنه رفع الحكم الشرعي بخطاب‘‘ آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’إنه أقرب الحدود‘‘ [3]
اور حافظ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’نسخ سے مراد کسی تخصیص یا شرط کی بنا پر ظاہری معنی کو ترک کر دینا یا اسے اختیار کر لینا ہے۔‘‘ [4]
نسخ کی مزید لغوی و اصطلاحی تحقیق نیز دوسرے مباحث کے لئے الصحاح للجوہری [5]، المقاموس المحیط للفیروز آبادی [6]، لسان العرب لابن منظور الأفریقی [7]، مجمل اللغۃ [8]، مقیاس اللغۃ [9]، التبصرہ فی أصول الفقہ للشیرازی [10]، المستصفی من علم الأصول للغزا [11]، الفقیہ والمتفقہ للبغدادی [12]، شرح اللمع للشیرازی [13]، أدب القاضی للماوردی [14]، التمہید لابی الخطاب الحنبلی [15]، البرہان [16]، قواعد الأصول [17]، احکام الفصول للباجی [18]، الأحکام فی أصول الاحکام للآمدی [19]، الإحکام فی أصول الأحکام لابن حزم [20]، المسودہ فی أصول الفقہ لآل تیمیہ [21]، التقیید والإیضاح للحافظ عراقی [22]، فتح
|