جناب امین احسن اصلاحی صاحب کے معتمد خصوصی اور دبستان فراہی کے ترجمان جناب خالد مسعود صاحب نے ’’احکام رسول کا قرآن مجید سے استنباط‘‘ کے زیر عنوان افادات فراہی کو مرتب کرتے ہوئے احکام رسول کی پانچ قسمیں بیان کی ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں:
’’1۔ پہلی قسم، وہ احکام جن کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحت فرمائی کہ وہ کتاب اللہ سے مستنبط ہیں، حالانکہ ظاہر کتاب کی نص میں وہ حکم موجود نہیں، گویا وہ حکم مستنبط ٹھہرے اور حضور کے فرض تبیین کے مطابق ہیں۔ ان احکام میں اصل و فروع پر غور کر کے ان کے استنباط کا پہلو معلوم کرنا دشوار نہیں ہوتا۔
2۔ دوسری قسم، وہ احکام جن کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کوئی صراحت نہیں فرمائی، مگر قرآن سے ان کے استنباط کا پہلو کلام کی دلالتوں کے ایک عارف پر ظاہر ہے۔ پس ایک تو یہ حکم قرآن سے ماخوذ ہونے کی بنا پر صحت سے قریب تر ہوتا ہے اور خدا نے نص کتاب کی روشنی میں فیصلہ کرنے کا حکم بھی دیا ہے – دوسرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانوں سے زیادہ کتاب اللہ کو سمجھنے والے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ جس معاملہ کے بعض پہلوؤں کا اشارہ کتاب اللہ میں موجود ہو اس کا کتاب کی روشنی کے بغیر فیصلہ کریں۔ تیسرے عرب قوم کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ کلام کے اشارات و کنایات کو خوب سمجھنے والے تھے اور حضور کو چونکہ نور و ہدایت اور بصیرت خدا کی طرف سے حاصل تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں سب سے زیادہ ذکی تھے۔
3۔ تیسری قسم، وہ احکام جن کے متعلق قرآن میں کوئی نص وارد نہیں، البتہ وہ اس اضافہ کا متحمل ہے۔ ایسے احکام میں ہم سنت کو مستقل اصل قرار دیں گے، کیونکہ ہمیں اطاعت رسول کا عام حکم دیا گیا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم یکساں طور پر ازحکمت ہوتا ہے، خواہ وہ کتاب اللہ کی بنیاد پر ہو یا اس نور و حکمت کے مطابق ہو جس سے خدا نے آپ کا سینہ بھر دیا تھا – اس اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی تیسری قسم بھی حقیقت میں قرآن سے ماخوذ ہے۔
یہ تین قسمیں حضور کے احکام کی واقعی قسمیں ہوئیں۔
4۔ چوتھی قسم، ان احکام پر مبنی ہے، جو کتاب اللہ سے زائد ہیں اور کتاب ان کی متحمل نہیں۔
5۔ پانچویں قسم، ان احکام پر مشتمل ہے جو قرآن کے مخالف ہیں۔
یہ آخری دونوں قسمیں فرضی ہیں، جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں کیوں کہ ان سے قرآن کا جلی یا خفی نسخ لازم آتا ہے۔ علماء کے درمیان جو اختلاف ہوا ہے، وہ انہی احکام میں ہوا ہے، لیکن یہ احکام گنے چنے ہیں الخ۔‘‘ [1]
|