گئیں، یہاں تک کہ نماز جیسی اہم چیز کے اوقات، اس کی تعداد اور اس کی رکعات تک بھی قرآن مجید میں بیان نہیں ہوئیں۔ یہی حال دوسری تمام عبادات اور دوسرے احکام و شرائع کا بھی ہے۔ مثلاً چوری پر قطع ید کا حکم تو قرآن نے دے دیا لیکن کتنی مقدار کی چوری، چوری ہو گی اور ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے گا، وغیرہ ان تمام امور کا بتانا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر چھوڑ دیا۔ اب اگر ہم سنت کو نکال دیں تو اگرچہ ہم دین کی اصولی باتوں سے واقف ہوں گے، لیکن ان کی عملی شکل سے اس طرح بے خبر ہوں گے جس طرح دور جاہلیت میں دین حنیفی کے پیروکار تھے۔ وہ خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے اور کہتے کہ ’’اے رب! ہم نہیں جانتے کہ تیری عبادت کس طرح کریں، ورنہ اسی طرح کرتے‘‘، اس سے معلوم ہوا کہ قرآن سنت ہی سے واضح ہوتا ہے۔ اسی لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ألا إنِّي أوتيتُ الكتابَ ومثلَهُ معهُ‘‘ (آگاہ رہو، میں قرآن دیا گیا ہوں اور اسی کے مانند اس کے ساتھ اور بھی) (سنن ابی داؤد، کتاب السنہ باب نمبر 6) [1]پس جس طریقہ سے قرآن واجب ہے اسی طرح سے سنت بھی واجب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی لئے بھیجا کہ قرآن مجید مبہم نہ رہے، بلکہ مجسم اور کامل شکل میں لوگوں کے سامنے آ جائے اور آپ نے عملاً ایسا کر دیا۔ [2]
آں موصوف ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں:
’’ألا إنِّي أوتيتُ الكتابَ ومثلَهُ معهُ‘‘[3]دیکھو مجھے قرآن دیا گیا اور اس کے مثل اور بھی۔ اس تفصیل سے یہ معلوم ہوا کہ سنت مثل قرآن ہے۔ سنت اپنے ثبوت میں بھی ہم پایہ قرآن ہے۔ اس لئے کہ قرآن امت کے قولی تواتر سے ثابت ہے اور سنت عملی تواتر سے۔ ہم ان دونوں کو مقدم و مؤخر نہیں کر سکتے اور کسی کو ادنیٰ و اعلیٰ نہیں قرار دے سکتے۔ دونوں دین کے قیام کے لئے یکساں ضروری ہیں۔‘‘ [4]
یہی بات جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں، لکھتے ہیں:
’’اس کے (سنت کے) متعلق ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے، اس میں اور قرآن مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح قولی تواتر سے ثابت ہوا ہے، یہ اسی طرح عملی تواتر سے ثابت ہے، چنانچہ اس کے بارے میں، اب کسی بحث و نزاع کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘ (تعارف المورد، ص: 4-5، اشراق لاہور ج نمبر 6 عدد نمبر 5، ص: 13 مجریہ ماہ مئی 1994ء)
|