Maktaba Wahhabi

98 - 191
صرف ثابت شدہ اور معلوم طریقہ ہے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بارعمل کیاہو، جس کی آپ نےمخالفت فرمائی ہو۔ جس کے حضور عام طور پر پابند رہے ہوں۔ “ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۵۵ء؃ ۱۲۷) مولاناکی یہ تعریف منطقی ہے نہ عرفی، تاہم : ۱)مولانا نے جو فرمایا تھا کھل کر فرمایا ہے، ان کی نظرمیں جو اہمیت سنت کو حاصل ہے وہ حدیث کونہیں۔ ۲) اور یہ اہمیّت بھی سُنّت کےاُسی مفہوم کوحاصل ہے جسے مولانا نے اپنے لئے متعین فرمایاہے یاجس کی تعلیم جماعت اسلامی کودنیا اس وقت پیش ِ نظر ہے۔ ۳)اور یہ بھی ظاہر ہے کہ سنت کے متعلق یہ مولانا کی اصطلاح ہے، عام طور پر لوگ اسے ملحوظ نہیں رکھتے۔ ۴) مولاناکی نگاہ میں کسی دُوسرے مفہوم پرسنت کا اطلاق دُرست نہیں، سنت کا منطوق ”صرف “یہی ہے (حالانکہ مولانا اس مفہوم میں پوری اُمّت سےمختلف ہیں ) جہاں تک میرا یقین ہے مولانانہ منکرِ حدیث ہیں نہ ان کو سنت سے انکار ہے لیکن مولانا نے جس انداز سے بحث کا آغاز فرمایاہے اس سے چور دروازے کھل سکتے ہیں اور منکرین حدیث کو اس سے کافی مدد مل سکتی ہے۔ ۵) مولانانے سنت کی تعریف کو اس قدر سکیڑ دیا ہے کہ اس کا تعلق چند اعمال سے ہی ہوگا جن کا ثبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے علیٰ سبیل الاستمرار ہے جیسے نماز کےبعض ارکان، لیکن اقدار زکوٰۃ وغیرہ کےلیے شاید پھر خبرِواحد ہی کا سہارالینا پڑے۔ ۶) ہزاردفعہ فرمایاجائے ”کہ اگر کوئی شخص اس (سنت) کو ماخذدین تسلیم نہیں کرتاتومیں اس کو مسلمان تسلیم نہیں کرتا۔ “ سوال یہ ہے کہ اس ”سنت“ کی پہنائی ہے کہاں تک؟ اس کا احاطہ چند اعمال سے آگے نہیں بڑھے گا۔ پورااسلام تو کسی دُوسری
Flag Counter