ومن الغریب الواقع ان حملة العلم فی الملة الاسلامیة اکثرھم العجم لامن العلوم الشرعیة ولامن العلوم العقلیة الاالقلیل النادروان کان منھم العربی فی نسبته ٗ فھوعجمی فی لغته ومرباہ ومشیخته مع ان الملة عربیة وصاحب شریعتھا۔ عربی ( مقدمه ص ۴۹۹)
”یہ عجیب واقعہ ہے کہ علماء اسلام اکثرعجمی ہیں۔ شرعی اور عقلی علوم میں عرب قلیل اور نادر ہیں۔ اگر ان میں کوئی نسبت کے لحاظ سے عربی ہے تولغت تربیت اور شیوخ کے لحاظ سے عجمی ہے حالانکہ ملّت عربی ہے اور نبی بھی عربی۔‘‘
اس کے بعد ابن ِخلدون اس کی وجہ بتلاتے ہیں :
”اس کا سبب یہ ہے کہ اسلام میں ابتداء ً سادگی تھی۔ اس میں علم اور صنعت نہ تھی۔ بدوی سادگی کا یہی تقاضا تھا۔ دین کے اوامر اور نواہی نقلاً حافظوں میں موجود تھے۔ وہ ان کے مآخذ کوکتاب وسُنت سے جانتے تھے۔ انہیں تعلیم و تالیف اور تدوین کی ضرورت نہ تھی۔ یہ طبعی اور قدرتی روش صحابہ اور تابعین کے زمانہ تک قائم رہی۔ اس قسم کے اہل علم کو وہ اپنے عرف میں قراء کہتے تھے اسی طرح قرآن وسنت کےحافظوں کوبھی وُہ قاری ہی کےنام سے تعبیر کرتےتھے، ا س لیے کہ وہ قرآن عزیز اور سنن نبویہ ماثورہ سےمسائل کوسمجھتےتھے اور معلوم ہے کہ حدیث قرآن کی تفسیر ہی تو ہے۔
جب حفظ ونقل کازمانہ دُورہوتاگیا تو عباسی دَور اور ہارون الرشید کی حکومت میں قرآن مجید کےلیےتفاسیر اور احادیث کوقید ِ تحریر میں لانے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی اسانید رجال اور علوم جرح وتعدیل کی ضرورت اُبھر آئی تاکہ احادیث کے ضعف اور صحت پر بحث کی جاسکے۔ پھر احکام کے استنباط واستخراج اور زبان کوبگاڑسےبچانے کے قواعد بنائے گئے۔
|