Maktaba Wahhabi

53 - 191
پر بھی حملہ کیاجاسکتاہے جو اہلِ قرآن کا اصل مقصد ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس بھیڑوں کا کیس پیش ہو اتو حضرت نے ڈگری ایک بھیڑ والے کے حق میں دی اور نوبھیڑوں والے کےخلاف فیصلہ صادر فرمایا اور مدعاعلیہ کا بیان تک نہیں سُنا۔ استغاثہ کی کہانی سُن کر مستغیث کو ڈگری دے دی۔ ممکن ہے ایک بکری کا مالک ایک کی صحیح نگہداشت ہی نہ کرسکتاہو۔ مدعاعلیہ کاخیال ہوگا کہ وہ ریوڑ میں آکر زیادہ اور بہتر طور پر پرورش پاسکے گی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کا اس کے خلاف بغاوت اور ظلم کافیصلہ آج کے عدالتی ماحول میں یقیناً مرافعہ کا مستحق ہے اور درایۃ ً محل نظر۔ سورۂ نون میں باغ والوں کا قصہ مذکور ہے جو بیچارے سوالیوں کی بھیڑ اور اپنے باغ کی حفاظت اور فائدہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا شکار ہوئے حالانکہ ان کا کوئی جرم نہیں۔ باغ ان کو باپ کی وراثت میں ملا، مسکین کو دینا نہ دینا شرعاً مالک کی مرضی ہے۔ پھرا س میں مستحق اور غیر مستحق کی بحث بھی آجاتی ہے لیکن ناراضگی میں ان بے چاروں کا باغ برباد کردیاگیا اور وارننگ تک نہیں دی گئی بے شک یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لیکن جب عقل وشعور کی فوجیں انسانی حقوق اور عدل وانصاف کی حمایت کےلیے میدان میں آجائیں تو وہاں حقائق کوکھل کر سامنے آنا چاہیے۔ اللہ اور رسول کے نام سے ایسے موقع پر اپیل نہیں کی جاسکتی۔ عقل وشعور کے مفتی کو بہرحال اپنا فتویٰ صادر کرنے کا حق ہے۔ اس کا اثر خُدا پر پڑے یااس کے رسول پر۔ آخر انسانی حقوق اور عدل و انصاف کے تقاضے بھی تو انہیں کے بنائے ہوئے اور بتائے ہوئے ہیں۔ پھر وہ کیوں اس کی پابندی نہ کریں اور عقل وروایت کی تنقید سے وہ کیوں بچیں۔ اُصول سب کے لیے اُصول ہے۔ عقل اور احتمالات کے گھوڑے اگر اسی طرح سر پٹ دوڑانا شروع کردیں جس طرح سُنّت اور حدیث کےخلاف ان کی لگامیں ڈھیلی کردی گئی ہیں تو ان کی یورش سے نہ خُدا بچے گا نہ رسول، نہ کوئی حقیقت محفوظ رہے گی نہ کوئی اُصول۔ خود بے چارے ابلیس کا کیس اسی نوعیت کا تھا۔ معمولی سی عقل ودرایت کی گرفت
Flag Counter