Maktaba Wahhabi

51 - 191
ہی اپنےآقا کی ناشکری یانمک حرامی میرے لیے کیسے ممکن ہے۔ غلام دروازے کی طرف بھاگ نکلا ملکہ اس کے تعاقب میں دوڑی۔ اس دوڑ میں غلام کی قمیض پچھلی طرف سے پھٹ گئی۔ جب مکان کے صحن میں پہنچے تو ملکہ کے خاوند اور غلام کے آقا وہاں بذات خود موجود تھے۔ ملکہ نے غلام پر الزام لگایا کہ چھیڑ کی ابتداء غلام نے کی ہے اسے جیل کی ہوا چکھانا چاہیے۔ عزیز مصر حقیقت حال دریافت ہی کررہے تھے کہ فیصلہ کی ایک صورت سامنے آگئی۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا کہ مسئلہ چنداں مشکل نہیں۔ اگر ابتداء شرارت غلام کی ہے تو اس کا رُخ ملکہ کی طرف ہونا ضروری ہے غلام کے کپڑے اگر سامنے کی طرف سے پھٹے ہیں تو ملکہ کی بات درست ہے سزا غلام کو ملنی چاہیے۔ اگر غلام کے کپڑے پشت کی طرف سے پھٹے ہیں تو معاملہ ظاہر ہے کہ بھاگتے ہوئے غلام کاتعاقب ملکہ نے کیا ہے اس لیے غلام سچا ہے ملکہ کی اس غلط جرأت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ غلام میں کوئی غلطی نہیں۔ جب معاملہ کی تحقیق کی گئی تو غلام سچا نکلا کیونکہ غلام کی قمیض پشت کی طرف سے پھٹی ہوئی تھی۔ یہ جھگڑا آج سے کئی سو سال قبل پیدا ہوا اور اس وقت کی سوسائٹی کے عدالتی معیار کے مطابق طے ہوگیا ا ور حضرت یوسف علیہ السلام باعزت بری ہوگئے۔ اب آج کا عدالتی نظام آج کے عیارانہ اذہان اور فنِ وکالت کی موشگافیوں کی مدد سے اسے سوچتا ہے تو وہ یہ کہنے کی جرأت کرتاہے کہ ملکہ کوخواہ مخواہ بدنام کیاگیا۔ عورت ذات اورپھر ملکہ اور آج سےکئی سو سال پہلے کا ذہن کیسے عقل باور کرسکتی ہے۔ ملکہ اپنے ادنیٰ غلام کے گریبان میں ہاتھ ڈال دے اور اس کے پیچھے بھاگنا شروع کردے عقل اسے قبول نہیں کرسکتی۔ غلام ہزار خوبصورت سہی۔ کیاملکہ اپنے مقام کو نہیں سمجھتی تھی۔ و ُہ اس کے پیچھے کیسے بھاگ کھڑی ہوئی۔ یہ پوری داستان اصول روایت کےخلاف ہے۔ بیشک قرآن نے اس روایت کی توثیق فرمادی ہے لیکن روایت کو کیسے نظر انداز کیاجائے۔ ممکن ہے غلام کی قمیض اس حادثے سے پہلے ہی اتفاقاً پھٹ گئی ہو۔ بچوں کی
Flag Counter