﴿فَاِِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَاِِمَّا فِدَائً﴾ (محمد: ۴) ’’پھر اختیار ہے کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دیا یا فدیہ لے کر۔‘‘ اَلْجَلِیْلُ ’’بڑے اور بلند مرتبہ والا‘‘ یہ نام قرآن مجید میں نہیں ، لیکن ذوالجلال آتا ہے اور غالباً یہی اس کا ماخذ ہے۔ لغت میں جَلَّ جَلَالًا وَجلالۃ، بڑی عمر والے، آزمودہ کار، بزرگ ہونے کو استعمال کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کے لیے یہ اسم بطور علم اس لیے ہے کہ وہ عظمت ذاتی کا مالک ہے اور جلالت نفسی اسی کے لیے ہے۔ بعض علماء نے بتلایا کہ: اسم کبیر کمال ذاتی پر۔ اسم جلیل کمالِ صفاتی پر دال ہے۔ اور اسم عظیم ہر دو معانی کا جامع ہے۔ روایت ابن ماجہ میں اللہ تعالیٰ کا اسم جمیل بھی آیا ہے۔ اس وقت جلیل کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ صفات قہریہ کا مظہر ہے اور جمیل کے یہ معنی کہ وہ صفاتِ لطیفہ کا ظہور فرماتا ہے۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے ذوالجلال والاکرام کے معنی میں لکھا ہے کہ جلال ہم کو ادب سکھلاتا ہے اور اکرام ہم پر ابواب محبت کشادہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ایسی ہے کہ اس کی جلالت بھی ہر وقت پیش نظر رکھی جائے اور اس کی محبت بھی ہر وقت دل میں قائم رہے۔ اَلْمُحْیٖ ’’زندہ کرنے والا‘‘ احیاء سے ہے جس کے معنی زندگی دینے کے ہیں ۔ |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |