’’زمین پر جو ہیں سب فنا ہونے والے ہیں ۔ صرف تیرے رب کی ذات جو عظمت اور عزت والی ہے باقی رہ جائے گی۔‘‘ فَانی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ یہ اشیاء اپنے غائب و انجام کے لحاظ سے فانی ہیں بلکہ فانی کے معنی یہ ہیں کہ جملہ مخلوق اپنے یوم وجود سے فنا کی طرف جا رہی ہے۔ بقا یعنی حالت اولین پر دوام و قیام صرف رب العالمین ہی کو حاصل ہے قرآن مجید میں الباقی بطور اسم نہیں آیا بلکہ ﴿یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ﴾ آیا ہے اور یہ اسم فعل سے مشتق کر لیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں مومنین کے اعمال صالح کو باقیات صالحات فرمایا گیا ہے۔ (کہف: ۵، مریم: ۸) قرآن مجید میں ہے: ﴿وَجَعَلَہَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً﴾ (الزخرف: ۲۸) ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے وعظ توحید کو باقی رکھا۔ اللہ تعالیٰ باقی ہے اور دوام ابد اسی کی ذات کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ باقی ہے کیونکہ وہ موت کا خالق ہے اور کوئی مخلوق اپنے خالق پر غالب نہیں آسکتی۔ اللہ تعالیٰ باقی ہے اور ہر ایک شے ہالک ہے۔ اللہ تعالیٰ باقی ہے اور جو اعمال صالح و افعال خیر بندہ کرتا ہے وہ ان کو بقا بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ باقی ہے کیونکہ جو اشیاء ہم کو نظر آتی ہیں ان کی بقاء عارضی بھی اسی کی داد ہے۔ اَلْقَابِضُ الْبَاسِطُ ’’بند کرنے والا، کشادگی کرنے والا‘‘ قبض تنگی نمودن وبسط فراخی کردن۔ یہ ہر دو اسماء قرآن مجید میں بطور اسماء مستعمل نہیں ہوئے۔ البتہ آیت قرآنیہ سے ان کا استخراج ہوسکتا ہے۔ |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |