قدرت، سمع و بصر اور ارادت و کلام والا ہے۔ وہ حیاتِ ذاتیہ کا مالک ہے۔ اسی نے ان کمالات کا مظاہرہ عالم ظہور میں دکھلایا ہے۔ اَلْقَیُّوْمُ ’’سب کو قائم رکھنے اور سنبھالنے والا‘‘ قیام سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کا نام القیوم ہے، القیوم اس لیے ہے کہ وہ بذاتِ خود قائم ہے۔ اس کا قیام کسی دوسری شے پر منحصر نہیں ۔ دیمومتِ ذات اسی کو حاصل ہے اور قیام ذات کی عزت کا وہی مالک ہے۔ واضح ہو کہ قرآن مجید میں اسم حَیّ صرف ایک جگہ اکیلا آیا ہے۔ ﴿ہُوَ الْحَیُّ لَآ اِِلٰہَ اِِلَّا ہُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ﴾ (المومن: ۶۵) ’’وہی ہے جو زندہ ہے۔ اس کے سوا معبود بھی کوئی نہیں ۔ تم اس کو پورے خلوص کے ساتھ پکارا کرو۔‘‘ باقی تین مقامات پر القیوم کے ساتھ یکجا آیا ہے۔ ۱۔ ﴿اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ﴾ (البقرۃ: ۲۵۵) ’’اللہ ہے، اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہی تو زندہ و توانا ہے۔‘‘ اَلْحَیُّ جبکہ عَلَم باری تعالیٰ ہے تو اس کے معنی ہیں ۔ باقی علی الابد، بلا زوال جو ہمیشہ سے موجود اور ہمیشہ سے صفتِ حیات سے موصوف ہے، نہ کبھی عدم اس کے سابق حال ہوا اور نہ کبھی موت اس کے لاحق حال ہوئی۔ دیگر مخلوقات کے لیے ﴿کُلُّ شَیْئٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ﴾ (القصص: ۸۸) ’’ہر شے فنا ہونے والی ہے مگر اسی کا منہ‘‘ کافرماں رواں ہے۔ اَلْقَیُّوْمُ کے معنی مجاہد نے ’’ہر شے پر قائم‘‘ بتلائے ہیں ۔ وہ قائم ہے دائم ہے، موجود ہے، لازوال ہے، غیر متغیر ہے۔ ترمذی میں انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ پریشانی لاحق ہوتی تو پڑھا کرتے: یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ۔ |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |