ہاں ! اسم الواجد وجد بضم سے بھی بن سکتا ہے۔ وُجْد کے معنی تونگری و غناء ہیں اور اَلْوَاجِدُ کے معنی ذُوالوُجْد ہوئے، یعنی وہ جو مالک غنا و تونگری ہے۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ یہ اسم اس حدیث ترمذی کے سوا اور کسی حدیث میں بھی نہیں آیا۔ امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اس پر ایک مثال بیان کی ہے۔ فرماتے ہیں : ’’چند شخصوں کو معلومہوا کہ فلاں میدان میں فلاں درخت کے نیچے خزانہ دبا ہوا ہے۔ ایک شخص چل پڑا۔ چل رہا ہے مگر وہاں تک نہیں پہنچا۔ دوسرا شخص وہاں پہنچ گیا، مگر ابھی اسے خزانہ ہاتھ نہیں لگا ہے۔ تیسرا شخص وہاں پہنچا اور اسے خزانہ مل بھی گیا۔ اس تیسرے شخص کی واردات کے لحاظ سے حالات کو تواجد، وجد اور وجود کے نام سے موسوم کیا کرتے ہیں ۔ اگر ان الفاظ کی صراحت کی جائے تو اصل موضوع سے بہت دور جا نکلیں گے۔ لہٰذا اختصار پر جو الواجد کی مناسبت سے لکھا گیا اکتفا کی جاتی ہے۔ اَلْمَاجِدُ ’’بزرگی اور بڑائی والا‘‘ مجد سے ہے مجید بھی مجد سے ہے۔ مجید میں مبالغہ ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر نام بوجہ علمیت خود کمالِ تامِ ربانی پر دلالت کرتا ہے۔ اقتضائے لفظی اس کے ساتھ شامل ہو یا نہ ہو، لہٰذا الماجد اللہ تعالیٰ کی بزرگی و عظمت پر دلالت قوی رکھتا ہے۔ یہ تلون صفات ہے کہ کبھی فعیل کی شکل میں اور کبھی فاعل کی شکل میں جلوہ آرائی ہوتی ہے اور ہر شکل میں دلربائی کی شان الگ الگ نظر آتی ہے۔ اَلْمُقَدِّمُ اَلْمُؤَخِّرُ ’’آگے کرنے والا، پیچھے کرنے والا‘‘ یہ ہر دو نام قرآن مجید میں نہیں ہیں ، لیکن صحیحین میں یہ ہر دو نام دعائِ ذیل میں آتے ہیں ۔ |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |