دل سے ہے۔‘‘ سہل تستری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’توکل کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کے سامنے خود کو مردہ وار بنالے۔‘‘ ابن عطا رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔ ’’توکل یہ ہے کہ تیرے دل میں اسباب کی جانب میلان نہ پایا جائے خواہ اسباب کی ضرورت کتنی ہی ہو۔‘‘ واضح ہو کہ بزرگانِ سلف کے اس بارہ میں اقوال مختلف ہیں ۔ بعض نے ترک اسباب کا نام توکل رکھا اور بعض نے ترک اعتماد بر اسباب کا نام توکل بتایا۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اعلیٰ مرتبہ یہی ہے کہ اسباب کو ترک نہ کرے مگر اسباب پر اعتماد کو کلیۃً ترک کر دے۔ واضح ہو کہ توکل کی ابتداء صفات ربوبیت، قدرت، کفایت اور قیومیت کے عرفان سے ہوتی ہے اور توکل کی انتہاء علم الٰہی اور مشیت نامتناہی کی معرفت سے حاصل کی جاتی ہے۔ جس توکل کو ان مقامت سے حاصل نہیں کیا گیا۔ وہ گمراہ لوگوں کا توکل ہے۔ یاد رکھو کہ توکل کا برترین درجہ توحید پر منحصر ہے اور توکل کی حقیقت قلب کو جملہ علائق سے علیحدہ کرکے توحید پر جم جانا ہے۔ اسباب کا تعلق جوارح کے ساتھ لگا رہے گا، مگر اسباب کا تعلق قلب سے ذرا بھی نہ ہوگا۔ توحید قلب سے توکل ملتا ہے تو توکل سے توحید حاصل ہوتی ہے۔ موحد کی ہی شان ہے کہ جس کے منہ سے نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْوَکِیْل زیبا ہے۔ اَلْقَوِیُّ ’’بڑی طاقت اور قوت والا‘‘ قوت سے ہے۔ قوت کا استعمال قرآن مجید میں چند مقامات پر آیا ہے۔ سورہ کہف میں ہے کہ جب ذوالقرنین علیہ السلام نے تیسرا دور جانب شمال کیا تب وہاں کے باشندوں نے یاجوج ماجوج کی لوٹ مار کی شکایت کی تھی اور ذوالقرنین کو خرچ (مصارف) دینے کا اظہار کیا تھا، تب ذوالقرنین نے نقدی لینے سے انکار کیا اور یہ کہا |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |