Maktaba Wahhabi

137 - 146
سورہ ہود و تین میں اللہ تعالیٰ اسم ﴿اَحْکَمُ الْحٰکِمِیْنَ﴾ اور سورہ اعراف و یونس و یوسف میں ﴿خَیْرُ الْحَاکِمِیْنَ﴾ بھی وارد ہوا ہے۔ حاکمین کے ذیل میں حکومت دنیوی والے بھی شامل ہیں اور حکومت روحانی والے بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرما کر پھر فرمایا ہے۔ اَلْعَدْلُ ’’عدل کرنے والا‘‘ عدل مصدر ہے اور فاعل کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ ان معنی میں مذکر و مونث واحد و جمع یکساں ہیں ۔ عدل کے لغوی معنی برابر کر دینا ہے۔ عادل وہ ہے جو متخاصمین کے حقوق میں برابری کر دیتا ہے۔ جس کا جتنا حق ہے اس کو مل جاتا ہے۔ اس معنی میں یہ لفظ بطور اسم باری تعالیٰ قرآن مجید میں مستعمل نہیں ہوا۔ ہاں اللہ تعالیٰ اس لیے عَدْل ہے کہ اس نے عدل و داد کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس لیے عَدْل ہے کہ اس کے احکام صدق عدل پر مبنی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ عدل ہے کیونکہ وہی اعتدال امزجہ کا خالق ہے۔ اللہ تعالیٰ عدل ہے کیونکہ اس کے احکام میں تبین و تسویہ موجود ہے۔ بے شک وہ عدل ہے اور اسی لیے اس نے حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ عدل ہے اس لیے کہ وہ صفت ظلم سے مبرا و پاک ہے۔ ظلم کے معنی غیر محل میں کسی شے کے رکھنے کے ہیں ۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ جو عدل ہے اس کے جملہ احکام و افعال استقامت و اعتدال پر ہیں ۔ کوتاہ بیں اللہ تعالیٰ کے احکام پر اعتراض کرتے ہیں اور اپنی نادانی کا ثبوت پیش کرتے ہیں ۔
Flag Counter