Maktaba Wahhabi

81 - 146
رَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ فَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْاِنْجِیلِ وَالْفُرْقَانِ اَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ شَیْئٍ اَنْتَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِہٖ اَللّٰہُمَّ اَنْتَ الْاَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الْآخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَاَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْئٌ اقْضِ عَنَّا الدَّیْنَ وَاَغْنِنَا مِنْ الْفَقْرِ۔)) (صحیح مسلم، جامع ترمذی، مؤطا امام احمد) ’’یا اللہ! آسمانوں کے رب، زمینوں کے رب اور عرش عظیم کے رب، ہمارے پروردگار اور سب چیزوں کے پروردگار، تورات اور انجیل اور قرآن اتارنے والے، دانہ اور گٹھلی کو زمین سے اگانے والے میں ہر ایک شے (جو تیرے قبضہ میں ہے) کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں ۔ تو اوّل ہے۔ تجھ سے پہلے کوئی شے نہ تھی۔ تو آخر ہے، تیرے بعد کوئی شے نہیں ۔ تو ظاہر ہے تجھ سے اوپر کوئی شے نہیں ، تو باطن ہے تجھ سے پرے کوئی شے نہیں ۔ میرا قرض اتار دے اور مجھے تنگ دستی سے نجات دے۔‘‘ واضح ہو کہ ہر دو اسماء اَلظَّاہِرُ وَالْبَاطِنُ ہر دو مزدوج آتے ہیں ۔ اَلْوَالِیُ ’’متولی اور متصرف‘‘ ولایت بالفتح ہے جس کے معنی تولیت ملک و امر ہیں ۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَ مَا لَہُمْ مِّنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ﴾ (الرعد: ۱۱) ’’اور نہیں ہے ان کے لیے سوائے اس کے کوئی ولی۔‘‘ لفظ مولیٰ بھی اسی مادہ سے آتا ہے جس کے معنی بندہ آزاد شدہ اور آزاد کنندہ بندہ، حلیف، ابن العم، ہمسایہ کے ہیں ۔ ایک کے کام کو دوسرا سر انجام دینے والا بھی مولیٰ کہلاتا ہے۔ موالات بھی اسی مادہ سے ہے۔
Flag Counter