ہیں ۔ بعد ازاں ظہر اس چیز کو کہنے لگے جو ادراکِ حس میں آجائے او ربطن اس شے کو جو مخفی از حس ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ ذَرُوْا ظَاہِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ﴾ (الانعام: ۱۲۰) ’’گناہ کی ظاہری و باطنی کیفیتوں اور حالتوں سے علیحدہ ہو جاؤ۔‘‘ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے یعنی انسان اپنی معرفت بدیہیہ سے اسے پاسکتا ہے۔ اور ہر ایک موجود شیء ہستی باری تعالیٰ پر بہترین دلیل فطرت انسانی بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ باطن ہے یعنی حقیقت عرفان کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے اپنی آیات سے اور باطن ہے اپنی ذات سے۔ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے اور سب پر محیط ہے۔ اللہ تعالیٰ باطن ہے اور کوئی ادراک اس کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ ﴿لَا تُدْرِکُہُ الْاَبْصَارُ﴾ (الانعام: ۱۰۳) اللہ ظاہر و باطن ہے اور اسی کی طرف سے نعم ظاہرہ و انعامات باطنہ حاصلہ ہوتی ہیں ۔ ﴿وَ اَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاہِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً﴾ (لقمان: ۲۰) اللہ تعالیٰ ظاہر ہے۔ ہدایت وجود اور شدت ظہور، بذریعہ دلالت مصنوع بر صانع اسی کے لیے ہے۔ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے اور جملہ ممکنات کا افتقار و احتیاج اس کی طرف ہے۔ اللہ تعالیٰ ظاہر ہے اور اس کی آیات باہرہ انفس و آفاق میں روشن و تاباں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ باطن ہے کیونکہ اس کی کنہ ذات سے حس ابصار اور درکِ افکار کوتاہ ہیں ۔ اللہ تعالیٰ باطن ہے۔ ستر کبریائی اس کا حجاب ہے اور حجابِ کمال اس کا بطون ہے۔ ترمذی کی حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ فاطمہ زہرہ رحمہ اللہ کو یہ دعا سکھلائی تھی۔ ((اَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰوٰتِ وَرَبَّ الْاَرْضِ وَرَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ |
Book Name | اسماء اللہ الحسنٰی قواعد معارف اور ایمانی ثمرات |
Writer | پیرزادہ شفیق الرحمن شاہ الدراوی |
Publisher | مکتبہ امام احمد بن حنبل مظفرآباد آزاد کشمیر |
Publish Year | |
Translator | |
Volume | |
Number of Pages | 146 |
Introduction |